مرزا مسیتابیگ منتہی کے اشعار
ہے خوشی اپنی وہی جو کچھ خوشی ہے آپ کی
ہے وہی منظور جو کچھ آپ کو منظور ہو
خود رحم کیجیے دل امیدوار پر
آپھی نکالئے کوئی صورت نباہ کی
ہے دولت حسن پاس تیرے
دیتا نہیں کیوں زکوٰۃ اس کی
چلے گا تیر جب اپنی دعا کا
کلیجے دشمنوں کے چھان دے گا
-
موضوع : تیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یوں انتظار یار میں ہم عمر بھر رہے
جیسے نظر غریب کی اللہ پر رہے
بوسہ جو مانگا بزم میں فرمایا یار نے
یہ دن دہاڑے آئے ہیں پگڑی اتارنے
مجھ سا عاشق آپ سا معشوق تب ہووے نصیب
جب خدا اک دوسرا ارض و سما پیدا کرے
جسے ذوق بادہ پرستی نہیں ہے
مرے سامنے اس کی ہستی نہیں ہے
جس قدر وہ مجھ سے بگڑا میں بھی بگڑا اس قدر
وہ ہوا جامہ سے باہر میں بھی ننگا ہو گیا
دنیا کا مال مفت میں چکھنے کے واسطے
ہاتھ آیا خوب شیخ کو حیلہ نماز کا
امید ہے ہمیں فردا ہو یا پس فردا
ضرور ہوئے گی صحبت وہ یار باقی ہے
آیا پیام وصل یکایک جو یار کا
معلوم یہ ہوا کہ گئے دن زوال کے
سکھلا رہا ہوں دل کو محبت کے رنگ ڈھنگ
کرتا ہوں میں مکان کی تعمیر آج کل
جلا کر زاہدوں کو میکشوں کو شاد کرتے ہیں
گرا کر مسجدوں کو میکدے آباد کرتے ہیں
بال کھولے نہیں پھرتا ہے اگر وہ سفاک
پھر کہو کیوں مجھے آشفتہ سری رہتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تہمت جرم و خطا حرص و ہوا غفلت دل
ہم نے بازار سے ہستی کے لیا کیا کیا کچھ
اذاں دے کے ناقوس کو پھونک کر
تجھے ہر طرح کب پکارا نہیں
اسیر کر کے ہمیں حکم دے گیا صیاد
قفس ہو تنگ تو ان کے نہ بال و پر رکھنا
کعبہ و دیر ایک سمجھتے ہیں رند پاک
پابند یہ نہیں ہیں حرام و حلال کے
پھاڑ ہی ڈالوں گا میں اک دن نقاب روئے یار
پھینک دوں گا کھود کر گلزار کی دیوار کو
مسافرانہ رہا اس سرائے ہستی میں
چلا پھرا میں زمانہ میں رہ گزر کی طرح
بعد مرنے کے ٹھکانے لگ گئی مٹی مری
خاک سے عاشق کی کیا کیا یار کے ساغر بنے
تیرے بازار دہر میں گردوں
ہم بھی آئے ہیں اک قبا کے لئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جدھر کو مری چشم تر جائے گی
ادھر کام دریا کا کر جائے گی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لطیف روح کے مانند جسم ہے کس کا
پیادہ کون وقار سوار رکھتا ہے
ہوتے ہوتے نہ ہوا مصرع رنگیں موزوں
بند کیوں ہو گیا خون جگر آتے آتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پیری ہوئی شباب سے اترا جھٹک گیا
شاعر ہوں میرا مصرع ثانی لٹک گیا
صدائے قلقل مینا مجھے نہیں آتی
مرے سوال کا شیشے میں کچھ جواب نہیں
ہو جاتی ہے ہوا قفس تن سے چھٹ کے روح
کیا صید بھاگتا ہے رہا ہو کے دام سے
تارک دنیا ہے جب سے منتہیؔ
مثل بیوہ مادر ایام ہے
طفیل روح مرا جسم زار باقی ہے
ہوا کے دم سے یہ مشت غبار باقی ہے
اس بت کو چھوڑ کر حرم و دیر پر مٹے
عقل شریف سے یہ نہایت بعید ہے
نہ بند کر اسے فصل بہار میں ساقی
نہ ڈال دختر رز کا اچار شیشے میں
خیال اس صف مژگاں کا دل میں آئے گا
ہمارے ملک میں بھرتی سپاہ کی ہوگی