تیر پر اشعار
جس تیرسے ہم واقف ہیں
آخراس کی شاعری میں کیا جگہ ، اگرہے بھی تو ان خاص مواقع پرجہاں جنگ وجدل کا بیان ہو لیکن ایسے مواقع آتے ہی کتنےہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے کہ تیرزخمی کردینے کی اپنی صفت کے ساتھ معنی کی کن نئی صورتوں میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ تخیل اورتخلیق کی کارکردگی یہی ہوتی ہے ۔ محبوب اوراس کے حسن کے بیانیے میں تیرایک مرکزی استعارے کے طورپرسامنے آتا ہے۔
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے
تیر ہر شخص کی کمان میں ہے
-
موضوع : پرندہ
اک اور تیر چلا اپنا عہد پورا کر
ابھی پرندے میں تھوڑی سی جان باقی ہے
تیر پہ تیر نشانوں پہ نشانے بدلے
شکر ہے حسن کے انداز پرانے بدلے
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
حال غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تیر مارے تھے تیر کھا بیٹھے
میٹھی باتیں، کبھی تلخ لہجے کے تیر
دل پہ ہر دن ہے ان کا کرم بھی نیا
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا
تیر سینے میں اتارا اور ہے
کب ان آنکھوں کا سامنا نہ ہوا
تیر جن کا کبھی خطا نہ ہوا
کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے
کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر
برساؤ تیر مجھ پہ مگر اتنا جان لو
پہلو میں دل ہے دل میں تمہارا خیال ہے
یوں ترس کھا کے نہ پوچھو احوال
تیر سینے پہ لگا ہو جیسے
تیر و کمان آپ بھی محسنؔ سنبھالیے
جب دوستی کی آڑ میں خنجر دکھائی دے
کس سے پوچھیں کہ وہ انداز نظر
کب تبسم ہوا کب تیر ہوا
کب نکلتا ہے اب جگر سے تیر
یہ بھی کیا تیری آشنائی ہے
کربلا میں رخ اصغر کی طرف
تیر چلتے نہیں دیکھے جاتے
وقت مہلت نہ دے گا پھر تم کو
تیر جس دم کمان سے نکلا
غیر پر کیوں نگاہ کرتے ہو
مجھ کو اس تیر کا نشانہ کرو
یہ ناد علی کا عجب معجزہ تھا
سبھی تیر پلٹے کمانوں کی جانب
مرحلے اور آنے والے ہیں
تیر اپنا ابھی کمان میں رکھ
تیرا انداز نرالا سب سے
تیر تو ایک نشانے کیا کیا
چلے گا تیر جب اپنی دعا کا
کلیجے دشمنوں کے چھان دے گا
تیرے مژگاں کی کیا کروں تعریف
تیر یہ بے کمان جاتا ہے
محبت تیر ہے اور تیر باطن چھید دیتا ہے
مگر نیت غلط ہو تو نشانے پر نہیں لگتا
جینے کی نہیں امید ہم کو
تیر اس کا جگر کے پار نکلا
نمی جگہ بنا رہی ہے آنکھ میں
یہ تیر اب کمان سے نکالئے
ہو گئے رخصت رئیسؔ و عالؔی و واصفؔ نثارؔ
رفتہ رفتہ آگرہ سیمابؔ سونا ہو گیا
پلک فسانہ شرارت حجاب تیر دعا
تمنا نیند اشارہ خمار سخت تھکی
قتل کے کب تھے یہ سارے ساماں
ایک تیر ایک کماں تھی پہلے
ایک تیر نظر ادھر مارو
دل ترستا ہے جاں ترستی ہے
میں بھی تصورؔ ان میں تھا
جن کے تیر خطا کے تھے
یہ تیر یوں ہی نہیں دشمنوں تلک جاتے
بدن کا سارا کھچاؤ کماں پہ پڑتا ہے
-
موضوع : بدن
بچ گیا تیر نگاہ یار سے
واقعی آئینہ ہے فولاد کا
زخم کاری بہت لگا دل پر
تیر اپنوں نے اک چلایا تھا
نشانہ بنے دل رہے تیر دل میں
نشانی نہیں اس نشانی سے اچھی
دل جو امیدوار ہوتا ہے
تیر غم کا شکار ہوتا ہے
تیر مت دیکھ مرے زخم کو دیکھ
یار یار اپنا عدو میں گم ہے
سب نشانے اگر صحیح ہوتے
تیر کوئی خطا نہیں ہوتا
تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے
یا رب اس گھر میں جو آوے نہ وہ مہماں نکلے
ریت پر وہ پڑی ہے مشک کوئی
تیر بھی اور کمان سا کچھ ہے
ہم بھی ہیں بلقیسؔ مجروحین میں
ہم پہ بھی تیر و تبر چلتے رہے