منیر شکوہ آبادی کے اشعار
جاتی ہے دور بات نکل کر زبان سے
پھرتا نہیں وہ تیر جو نکلا کمان سے
گالیاں زخم کہن کو دیکھ کر دیتی ہو کیوں
باسی کھانے میں ملاتے ہو طعام تازہ آج
کس طرح خوش ہوں شام کو وہ چاند دیکھ کر
آتا نہیں ہے مشعل مہ کا دھواں پسند
گرمیٔ حسن کی مدحت کا صلا لیتے ہیں
مشعلیں آپ کے سائے سے جلا لیتے ہیں
کفر و اسلام میں تولیں جو حقیقت تیری
بت کدہ کیا کہ حرم سنگ ترازو ہو جائے
تیری فرقت میں شراب عیش کا توڑا ہوا
جام مے دست سبو کے واسطے پھوڑا ہوا
ہو گیا معمور عالم جب کیا دربار عام
تخلیہ چاہا تو دنیا صاف خالی ہو گئی
کیا مزہ پردۂ وحدت میں ہے کھلتا نہیں حال
آپ خلوت میں یہ فرمائیے کیا کرتے ہیں
اے بت یہ ہے نماز کہ ہے گھات قتل کی
نیت ادا کی ہے کہ اشارے قضا کے ہیں
لیٹے جو ساتھ ہاتھ لگا بوسۂ دہن
آیا عمل میں علم نہانی پلنگ پر
ہاتھ ملواتے ہو ترسائے گلوری کے لئے
کف افسوس نہ مل جائے کہیں پاؤں میں
سختیٔ دہر ہوئے بحر سخن میں آساں
قافیے آئے جو پتھر کے میں پانی سمجھا
منڈیروں پر چھڑک دے اپنے کشتوں کا لہو اے گل
اگے گا سبزۂ شمسیر دیوار گلستاں پر
یاد اس بت کی نمازوں میں جو آئی مجھ کو
تپش شوق سے ہر بار میں بیٹھا اٹھا
پڑ گئی جان جو اس طفل نے پتھر مارے
آج جگنو کی طرح ہر شرر سنگ اڑا
بے علم شاعروں کا گلہ کیا ہے اے منیرؔ
ہے اہل علم کو ترا طرز بیاں پسند
کبھی پیام نہ بھیجا بتوں نے میرے پاس
خدا ہیں کیسے کہ پیغامبر نہیں رکھتے
سلسلہ گبرو مسلماں کی عداوت کا مٹا
اے پری بے پردہ ہو کر سبحۂ زنار توڑ
ترے کوچے سے جدا روتے ہیں شب کو عاشق
آج کل بارش شبنم ہے چمن سے باہر
کعبے سے مجھ کو لائی سواد کنشت میں
اصلاح دی بتوں نے خط سر نوشت میں
شیخ لے ہے راہ کعبے کی برہمن دیر کی
عشق کا رستہ جدا ہے کفر اور اسلام سے
وحشت میں بسر ہوتے ہیں ایام شباب آہ
یہ شام جوانی ہے کہ سایہ ہے ہرن کا
آستین صبر سے باہر نہ نکلے گا اگر
ہوگی دست غیب کی صورت ہمارے ہاتھ میں
برہمن کعبہ میں آیا شیخ پہونچا دیر میں
لوگ بے وحدت ہوئے ہیں تیری کثرت دیکھ کر
کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے
کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا
تشریح
یہ شعر اپنے تلازمات کی وجہ سے کافی دلچسپ ہے۔ مضمون روایتی ہے مگر طرزِ بیان نے اس میں جان ڈال دی ہے۔ پان اور بیڑا ہم معنی ہیں۔ مگر شاعر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پان کی مناسبت سے بیڑا اٹھانا استعمال کرکے شعر میں لطف کا عنصر ڈال دیا ہے۔ بیڑا اٹھانا محاورہ ہے جس کے معنی ذمہ لینا، عہد لینا، آمادہ ہونا اور مستعد ہونا ہے۔ مضمون اس شعر کا یہ ہے کہ شاعر کا محبوب اس کے رقیبوں پر مہربان ہوکر انہیں پان عنایت کرتا ہے جس کی وجہ سے شاعر کو یہ احساس ہوتا ہے دراصل ایسا کرکے اس کا محبوب اسے قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس شعر میں عشق میں رقابت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی عاشق کی جلن بھی ہے اور محبوب کی عاشق کے تئیں بےاعتنائی بھی۔ یعنی شعری کردار اس بات پر شاکی ہے کہ اس کا محبوب اس کے رقیبوں کی طرف ملتفت ہوکر انہیں پان عنایت کرتا ہے اور ایسا کرکے جیسے اس نے اپنے عاشق کو قتل کرنے کا عہد کیا ہے۔
شفق سوپوری
اے رشک ماہ رات کو مٹھی نہ کھولنا
مہدی کا چور ہاتھ سے جائے نہ چھوٹ کے
جب بڑھ گئی عمر گھٹ گئی زیست
جو حد سے زیادہ ہو وہ کم ہے
خاکساروں میں نہیں ایسی کسی کی توقیر
قد آدم مری تعظیم کو سایا اٹھا
بگڑی ہوئی ہے ساری حسینوں کی بناوٹ
اللہ رے عالم ترے بے ساختہ پن کا
کفر و اسلام نے مقصد کو پہنچنے نہ دیا
کعبہ و دیر کو سنگ رہ منزل سمجھا
کوٹھے پہ چہرۂ پر نور دکھایا سر شام
یار سے رجعت خورشید کا اعجاز ہوا
ہمیشہ مے کدہ میں خوش قدوں کا مجمع ہے
ہزاروں سرو لگے ہیں کنار جوئے شراب
بسملوں سے بوسۂ لب کا جو وعدہ ہو گیا
خود بہ خود ہر زخم کا انگور میٹھا ہو گیا
جان کر اس بت کا گھر کعبہ کو سجدہ کر لیا
اے برہمن مجھ کو بیت اللہ نے دھوکا دیا
اشعار میرے سن کے وہ خاموش ہو گیا
غنچہ برنگ گل ہمہ تن گوش ہو گیا
شبنم کی ہے انگیا تلے انگیا کی پسینہ
کیا لطف ہے شبنم تہ شبنم نظر آئی
جھوٹی باتوں کی تجلی نظر آئے ایسے
صبح کاذب کی سفیدی پھرے دالانوں میں
نماز شکر کی پڑھتا ہے جام توڑ کے شیخ
وضو کے واسطے لیتا ہے آبروئے شراب
دم بھر رہے حباب نمط کائنات میں
اس زندگی میں نام نہیں ماہ و سال کا
زندۂ جاوید ہیں مارا جنہیں اس شوخ نے
بر طرف جو ہو گئے ان کی بحالی ہو گئی
صدمہ سے بال شیشۂ گردوں میں پڑ گیا
تم نے دکھائی کوٹھے پر اپنی کمر کسے
تعریف روز لیتے ہو اپنے غرور کی
مجھ کو برہمن بت پندار کر دیا
کرتے ہیں مسجدوں میں شکوۂ مستاں زاہد
یعنی آنکھوں کا بھوؤں سے یہ گلا کرتے ہیں
آتے نہیں ہیں دیدہ گریاں کے سامنے
بادل بھی کرتے ہیں مری برسات کا لحاظ
لگائیں تاک کے اس مست نے جو تلواریں
دہان زخم بدن سے بھی آئے بوئے شراب
احسان نہیں خواب میں آئے جو مرے پاس
چوری کی ملاقات ملاقات نہیں ہے
شکر ہے جامہ سے باہر وہ ہوا غصہ میں
جو کہ پردے میں بھی عریاں نہ ہوا تھا سو ہوا
تیغ ابرو کے مجھے زخم کہن یاد آئے
ماہ نو کو بھی میں تلوار پرانی سمجھا
اب کے بہار حسن بتاں ہے کمال پر
ناقوس ہو نہ جائے کف برہمن میں پھول