Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

منیر  شکوہ آبادی

1814 - 1880 | رام پور, انڈیا

معروف کلاسیکی شاعر جنہونے 1857 کے غدر میں حصّہ لیا

معروف کلاسیکی شاعر جنہونے 1857 کے غدر میں حصّہ لیا

منیر  شکوہ آبادی کے اشعار

6.7K
Favorite

باعتبار

یاد اس بت کی نمازوں میں جو آئی مجھ کو

تپش شوق سے ہر بار میں بیٹھا اٹھا

ہو گیا ہوں میں نقاب روئے روشن پر فقیر

چاہئے تہ بند مجھ کو چادر مہتاب کا

تیری فرقت میں شراب عیش کا توڑا ہوا

جام مے دست سبو کے واسطے پھوڑا ہوا

کلکتہ میں ہر دم ہے منیرؔ آپ کو وحشت

ہر کوٹھی میں ہر بنگلے میں جنگلا نظر آیا

گرمیٔ حسن کی مدحت کا صلا لیتے ہیں

مشعلیں آپ کے سائے سے جلا لیتے ہیں

کفر و اسلام میں تولیں جو حقیقت تیری

بت کدہ کیا کہ حرم سنگ ترازو ہو جائے

عاشق بنا کے ہم کو جلاتے ہیں شمع رو

پروانہ چاہئے انہیں پروانہ چاہئے

جاتی ہے دور بات نکل کر زبان سے

پھرتا نہیں وہ تیر جو نکلا کمان سے

گالیاں زخم کہن کو دیکھ کر دیتی ہو کیوں

باسی کھانے میں ملاتے ہو طعام تازہ آج

کس طرح خوش ہوں شام کو وہ چاند دیکھ کر

آتا نہیں ہے مشعل مہ کا دھواں پسند

بوسے ہیں بے حساب ہر دن کے

وعدے کیوں ٹالتے ہو گن گن کے

پہنچا ہے اس کے پاس یہ آئینہ ٹوٹ کے

کس سے ملا ہے شیشۂ دل ہم سے پھوٹ کے

منڈیروں پر چھڑک دے اپنے کشتوں کا لہو اے گل

اگے گا سبزۂ شمسیر دیوار گلستاں پر

روز دل ہائے مے کشاں ٹوٹے

اے خدا جام آسماں ٹوٹے

ہاتھ ملواتے ہو ترسائے گلوری کے لئے

کف افسوس نہ مل جائے کہیں پاؤں میں

سختیٔ دہر ہوئے بحر سخن میں آساں

قافیے آئے جو پتھر کے میں پانی سمجھا

بھٹکے پھرے دو عملۂ دیر و حرم میں ہم

اس سمت کفر اس طرف اسلام لے گیا

لیٹے جو ساتھ ہاتھ لگا بوسۂ دہن

آیا عمل میں علم نہانی پلنگ پر

کیا مزہ پردۂ وحدت میں ہے کھلتا نہیں حال

آپ خلوت میں یہ فرمائیے کیا کرتے ہیں

اے بت یہ ہے نماز کہ ہے گھات قتل کی

نیت ادا کی ہے کہ اشارے قضا کے ہیں

کہتے ہیں سب دیکھ کر بیتاب میرا عضو عضو

آدمی اب تک نہیں دیکھا کہیں سیماب کا

ہو گیا معمور عالم جب کیا دربار عام

تخلیہ چاہا تو دنیا صاف خالی ہو گئی

استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج

کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات

جب بڑھ گئی عمر گھٹ گئی زیست

جو حد سے زیادہ ہو وہ کم ہے

اے رشک ماہ رات کو مٹھی نہ کھولنا

مہدی کا چور ہاتھ سے جائے نہ چھوٹ کے

خال و خط سے عیب اس کے روئے اقدس کو نہیں

حسن ہے مصحف میں ہونا نقطۂ اعراب کا

کرتا رہا لغات کی تحقیق عمر بھر

اعمال نامہ نسخۂ فرہنگ ہو گیا

وحشت میں بسر ہوتے ہیں ایام شباب آہ

یہ شام جوانی ہے کہ سایہ ہے ہرن کا

کبر بھی ہے شرک اے زاہد موحد کے حضور

لے کے تیشہ خاکساری کا بت پندار توڑ

منہ تک بھی ضعف سے نہیں آ سکتی دل کی بات

دروازہ گھر سے سیکڑوں فرسنگ ہو گیا

آستین صبر سے باہر نہ نکلے گا اگر

ہوگی دست غیب کی صورت ہمارے ہاتھ میں

برہمن کعبہ میں آیا شیخ پہونچا دیر میں

لوگ بے وحدت ہوئے ہیں تیری کثرت دیکھ کر

دیکھا ہے عاشقوں نے برہمن کی آنکھ سے

ہر بت خدا ہے چاہنے والوں کے سامنے

کب پان رقیبوں کو عنایت نہیں ہوتے

کس روز مرے قتل کا بیڑا نہیں اٹھتا

تشریح

یہ شعر اپنے تلازمات کی وجہ سے کافی دلچسپ ہے۔ مضمون روایتی ہے مگر طرزِ بیان نے اس میں جان ڈال دی ہے۔ پان اور بیڑا ہم معنی ہیں۔ مگر شاعر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پان کی مناسبت سے بیڑا اٹھانا استعمال کرکے شعر میں لطف کا عنصر ڈال دیا ہے۔ بیڑا اٹھانا محاورہ ہے جس کے معنی ذمہ لینا، عہد لینا، آمادہ ہونا اور مستعد ہونا ہے۔ مضمون اس شعر کا یہ ہے کہ شاعر کا محبوب اس کے رقیبوں پر مہربان ہوکر انہیں پان عنایت کرتا ہے جس کی وجہ سے شاعر کو یہ احساس ہوتا ہے دراصل ایسا کرکے اس کا محبوب اسے قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس شعر میں عشق میں رقابت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی عاشق کی جلن بھی ہے اور محبوب کی عاشق کے تئیں بےاعتنائی بھی۔ یعنی شعری کردار اس بات پر شاکی ہے کہ اس کا محبوب اس کے رقیبوں کی طرف ملتفت ہوکر انہیں پان عنایت کرتا ہے اور ایسا کرکے جیسے اس نے اپنے عاشق کو قتل کرنے کا عہد کیا ہے۔

شفق سوپوری

کی ترک میں نے شیخ و برہمن کی پیروی

دیر و حرم میں مجھ کو ترا نام لے گیا

پڑ گئی جان جو اس طفل نے پتھر مارے

آج جگنو کی طرح ہر شرر سنگ اڑا

بے علم شاعروں کا گلہ کیا ہے اے منیرؔ

ہے اہل علم کو ترا طرز بیاں پسند

جام عقیق زرد ہے نرگس کے ہاتھ میں

تقسیم کر رہا ہے مے ارغواں بسنت

بوسہ ہونٹوں کا مل گیا کس کو

دل میں کچھ آج درد میٹھا ہے

کلکتہ میں ہر دم ہے منیرؔ آپ کو وحشت

ہر کوٹھی میں ہر بنگلے میں جنگلا نظر آیا

ترے کوچے سے جدا روتے ہیں شب کو عاشق

آج کل بارش شبنم ہے چمن سے باہر

یا رب ہزار سال سلامت رہیں حضور

ہو روز جشن عید یہاں جاوداں بسنت

کعبے سے مجھ کو لائی سواد کنشت میں

اصلاح دی بتوں نے خط سر نوشت میں

شیخ لے ہے راہ کعبے کی برہمن دیر کی

عشق کا رستہ جدا ہے کفر اور اسلام سے

سرسوں جو پھولی دیدۂ جام شراب میں

بنت العنب سے کرنے لگا شوخیاں بسنت

کبھی پیام نہ بھیجا بتوں نے میرے پاس

خدا ہیں کیسے کہ پیغامبر نہیں رکھتے

سلسلہ گبرو مسلماں کی عداوت کا مٹا

اے پری بے پردہ ہو کر سبحۂ زنار توڑ

بے تکلف آ گیا وہ مہ دم فکر سخن

رہ گیا پاس ادب سے قافیہ آداب کا

اب کے بہار حسن بتاں ہے کمال پر

ناقوس ہو نہ جائے کف برہمن میں پھول

کرتے ہیں مسجدوں میں شکوۂ مستاں زاہد

یعنی آنکھوں کا بھوؤں سے یہ گلا کرتے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے