ناصر شہزاد کے اشعار
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے وہ یوں ہی بچھڑ گیا
پھر یوں ہوا کہ زیست کے دن یوں ہی کٹ گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ
رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے
-
موضوع : گاؤں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب کہ تجھ بن نہیں موجود کوئی
اپنے ہونے کا یقیں کیسے کروں
تجھ سے بچھڑے گاؤں چھوٹا شہر میں آ کر بسے
تج دیئے سب سنگی ساتھی تیاگ ڈالا دیس بھی
نیا باندھو ندی کنارے سکھی
چاند بیراگ رات تیاگ لگے
تجھ سے ملی نگاہ تو دیکھا کہ درمیاں
چاندی کے آبشار تھے سونے کی راہ تھی
یاد آئے تو مجھ کو بہت جب شب کٹے جب پو پھٹے
جب وادیوں میں دور تک کہرا دکھے بے انت سا
جنہیں ترے نام کی چاہ ہے یہ زمین ان کی گواہ ہے
وہیں کربلا کا وہ دشت ہے وہیں قصر کوفہ و شام ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تجھے پچھاڑ نہ دیں روشنی میں تیرے رفیق
دیا بجھے نہ بجھے تو بھی پھونک مار تو لے
قائم ہے آبرو تو غنیمت یہی سمجھ
میلے سے ہیں جو کپڑے پھٹا سا جو بوٹ ہے
پاٹی ہیں ہم نے بپھری چنابیں ترے لئے
ہم لے گئے ہیں تجھ کو سوئمبر سے جیت کے
تو شرافتوں کا مقام ہے تو صداقتوں کا دوام ہے
جہاں فرق شاہ و گدا نہیں ترے دین کا وہ نظام ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کھلے دھان کھلکھلا کر پڑے ندیوں میں ناکے
گھنی خوشبوؤں سے مہکے مرے دیس کے علاقے
پستکوں میں پرانوں میں ارضوں میں آسمانوں میں
ایک نام کی بھگتی ایک قول کا کلمہ
دریا پہ ٹیکری سے پرے خانقاہ تھی
تب تیرے میرے پیار کی دنیا گواہ تھی
تلے تیغ کے وہ عبادتیں تری شان کی وہ شہادتیں
وہ حکایتیں وہ روایتیں ترے سارے گھر پہ سلام ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیکھا قد گناہ پہ جب اس کو ملتفت
بڑھ کر حد نگاہ لگی اس کو ڈھانپنے
مجمع نہیں مجلہ ہے اشعار کی جگہ
بھر اور کوئی سوانگ جو ہونا ہی ہوٹ ہے
اک خطہ خوں میں کہیں دریا کے کنارے
دیوار زمانہ سے گرا دھیان پھسل کر
چوکھٹا دل کا یہاں ہے ہو بہ ہو تجھ سا کوئی
ہونٹ بھی آنکھیں بھی چھب ڈھب بھی تجھی سا فیس بھی
سنگت دلوں کی جیونوں مرنوں کا ارتباط
پھر ڈر پڑا تھا کیا تجھے گرد و نواح کا