راگھویندر دیویدی کے اشعار
زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کر لی کسی نے
اور کوئی خودکشی کرتا رہا ہے زندگی بھر
خاک سے پیدا ہوا ہے خاک میں مل جائے گا
ایک کلہڑ کی طرح ہے آدمی کی زندگی
ملے دو وقت کی روٹی سکوں سے نیند آ جائے
یہی پہلی ضرورت ہے جسے ہم بھول جاتے ہیں
اک طریقہ یہ بھی تھا پھل بانٹتے وہ عمر بھر
بھائیوں نے پیڑ کاٹا اور لکڑی بانٹ لی
سب کا الگ انداز تھا سب رنگ رکھتے تھے جدا
رہنا سبھی کے ساتھ تھا سو خود کو پانی کر لیا
کسی کا جون کبھی ختم ہی نہیں ہوتا
کسی کے پاس دسمبر قیام کرتا ہے
زندگی مٹی کی صورت چاک پر رکھی ہوئی ہے
اور ہم بنتے بگڑتے اپنی قسمت دیکھتے ہیں
بنا دیکھے کسی سے عشق کر کے سوچتا ہوں میں
نہیں دیکھا ہے کچھ تو عشق آخر دیکھتا کیا ہے
یاد کرنے کی وہ شدت کھو گئی جانے کہاں
اب کسی کو ہچکیاں بھی دیر تک آتی نہیں
چاند تارے توڑ لانا یہ بھی کوئی کام ہے
ہر قدم پر ساتھ میرے عمر بھر چل کے دکھا
ساتھ چل کر دیکھ میرے اور مجھ کو آزما
کیوں یقیں کرتا ہے لوگوں سے سنی ہر بات پر
اب سمجھ آیا ہمیں یہ روح کیوں بے چین ہے
پھر رہے ہیں ذہن پر ہم بوجھ لادے جسم کا
خوب صورت روح کا اک پیرہن ہے جسم لیکن
جسم کے ملبے میں سب نے روح اپنی دفن کر دی
جو سمجھتے تھے ہمیں سے روشنی دنیا میں ہے
وقت نے بے وقت ان کو رکھ دیا ہے طاق پر
مانا کہ مجھ میں تہ بہت ہیں اور گہرا بھی ہوں میں
تم نے بھی تو مجھ کو کبھی کھولا نہیں ترتیب سے
مانا کہ ہم خیال نہیں ہیں تو کیا ہوا
آنسو خوشی کے ساتھ ہی رہتے ہیں آنکھ میں
میں ذرا سا کیا کھلا وہ خود سمٹنے لگ گیا
جو کہا کرتا تھا مجھ سے کھل کے کیوں ملتے نہیں
بہت دشوار ہے جینا کسی بھی بند کمرے میں
اگر ہو بند دروازہ تو کھڑکی کھول کر رکھنا
دیری سے ملنے کا جو غم تجھ کو پریشاں کر رہا
اے دوست ہم بھی ہیں اسی تاخیر کے مارے ہوئے
شہر کے پکے مکانوں میں دراریں آ گئیں
گاؤں کے کچے گھروں کی نیو پکی تھی بہت
نہ جانے زندگی کیا دیکھ کر رشتہ نبھاتی ہے
کسی کو دے دیا سب کچھ کسی کو کچھ نہیں ملتا
سبھی کو چاہیئے اپنے گھروں میں روشنی لیکن
چراغوں کو جلانے کا ہنر سب کو نہیں آتا
وہ اشارہ کر کے پیچھے ہٹ گیا تھا ایک دن
اس اشارے کو سمجھنے میں لگا ہوں آج تک
عجب یہ بات ہے ہر دم ہمارا سچ پرکھتا ہے
کبھی تو جھوٹ اس کا بھی کسوٹی پر کسا جائے
وہ کہانی چھوڑتی ہے مدتوں اپنا اثر
جس کہانی کا کبھی کردار مرتا ہی نہیں
جانے کتنی بار سکوں کو گنا کرتے تھے ہم
نوٹ کی گڈی نے ہم سے ریز گاری چھین لی
ٹھیک ہو سکتے ہیں وہ جو جسم سے بیمار ہیں
ذہن سے بیمار ہیں جو ان کا درماں کچھ نہیں
بات کرنا پیار کی آسان سے آسان ہے
عشق کرنا کرتے رہنا ہے کٹھن سے بھی کٹھن
دولت ملی تو زندگی میں آ گئی لذت مگر
آنکھوں سے نیندیں اڑ گئیں دل کا سکوں بھی چھن گیا
بڑھ رہا ہے زندگی کا کینوس ہر دن مگر
رنگ گہرا اب نہیں دکھتا کسی تصویر میں
زندگی جب سانس تیرے پاس ہی گروی رکھی ہے
کیوں نہیں دیتی ہمیں تو زندگی جینے کی مہلت
اک ترے کہنے سے میرا کم نہیں کردار ہوگا
یہ الگ ہے بات میں تیری کہانی میں نہیں ہوں
ساتھ بھی چھوٹا نہیں کوئی گلہ شکوہ نہیں
میں نکل کر آ گیا اس کی گلی سے اس طرح
آگ سے رشتہ ہے میرا اور دریا بھی ہے اپنا
آئے دن دونوں کے جھگڑے میں الجھ کر رہ گیا ہوں
محبت کا نتیجہ ہے جو اب تک ساتھ ہیں دونوں
اگر کچھ اور ہوتا تو جدا ہم ہو گئے ہوتے
دھوپ جاڑا درد دنیا بھوک پتھر پیاس آنسو
جانے کس کس سے ملا ہوں زندگی تیرے لیے
ہے کوئی شامل ہماری زندگی کے فیصلوں میں
بچ کے جانا تھا جہاں سے ہم وہیں ٹکرا گئے ہیں
چراغوں کو جلانا ہے جلاؤ تم مگر پہلے
ہوا کے دل میں کیا ہے یہ پتہ کرنا ضروری ہے
جانے کتنے ہی شناور عشق کے دریا میں ڈوبے
کیسے بچتا میں بھی اس دریا سے جو پیاسا بہت ہے
کہیں کوئی دیا جلتا ہے تو اس کے اشارے پر
ہوا بھی اس کی مرضی سے چلا کرتی ہے دنیا میں
رادھا کے ساتھ ساتھ ہیں سکھیاں بھی باوری
موہن کی بانسری کا یہی تو کمال ہے
دیوار کے اس پار جانے کی تمنا ہے تو پھر
ہمت جٹا کر تم کبھی دیوار ڈھاتے کیوں نہیں
اچھے بھلے جو لوگ خد و خال سے لگے
لیکن وہ چال ڈھال سے کم ظرف تھے بہت
رہتے ہیں مجھ میں ایک نہیں دو مزاج داں
شاعر کا رنگ اور صحافی کا اور ہے
خواب پورے ہو گئے تو لطف گھٹنے لگ گیا
زندگی سے کچھ شکایت دل میں رہنی چاہیئے
اک روشنی عجب سی دکھی اس کتاب میں
جس میں لکھا تھا عشق عبادت سے کم نہیں
التجا کرتے ہوئے پیاسا پرندہ مر گیا
اب تو دریا کو حیا ث ڈوب مرنا چاہیئے
لازم ہے انتظار کروں گا میں عمر بھر
ممکن اگر ہو تم بھی مری راہ دیکھنا
اتنا کہا گیا تھا کہ زیور اتار دیں
اور آپ نے زمین پہ ایمان رکھ دیا
وہ اگر انکار کر دے بات اس کی مان لو
“عشق کرنے کے لیے اتنی تو ہمت چاہیئے”