Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Raghvendra Dwivedi's Photo'

راگھویندر دیویدی

1980 | دلی, انڈیا

راگھویندر دیویدی کے اشعار

1.7K
Favorite

باعتبار

سب کا الگ انداز تھا سب رنگ رکھتے تھے جدا

رہنا سبھی کے ساتھ تھا سو خود کو پانی کر لیا

اک طریقہ یہ بھی تھا پھل بانٹتے وہ عمر بھر

بھائیوں نے پیڑ کاٹا اور لکڑی بانٹ لی

خوب صورت روح کا اک پیرہن ہے جسم لیکن

جسم کے ملبے میں سب نے روح اپنی دفن کر دی

یاد کرنے کی وہ شدت کھو گئی جانے کہاں

اب کسی کو ہچکیاں بھی دیر تک آتی نہیں

ملے دو وقت کی روٹی سکوں سے نیند آ جائے

یہی پہلی ضرورت ہے جسے ہم بھول جاتے ہیں

زندگی مٹی کی صورت چاک پر رکھی ہوئی ہے

اور ہم بنتے بگڑتے اپنی قسمت دیکھتے ہیں

مانا کہ مجھ میں تہ بہت ہیں اور گہرا بھی ہوں میں

تم نے بھی تو مجھ کو کبھی کھولا نہیں ترتیب سے

میں ذرا سا کیا کھلا وہ خود سمٹنے لگ گیا

جو کہا کرتا تھا مجھ سے کھل کے کیوں ملتے نہیں

مانا کہ ہم خیال نہیں ہیں تو کیا ہوا

آنسو خوشی کے ساتھ ہی رہتے ہیں آنکھ میں

ساتھ چل کر دیکھ میرے اور مجھ کو آزما

کیوں یقیں کرتا ہے لوگوں سے سنی ہر بات پر

جو سمجھتے تھے ہمیں سے روشنی دنیا میں ہے

وقت نے بے وقت ان کو رکھ دیا ہے طاق پر

بنا دیکھے کسی سے عشق کر کے سوچتا ہوں میں

نہیں دیکھا ہے کچھ تو عشق آخر دیکھتا کیا ہے

سبھی کو چاہیئے اپنے گھروں میں روشنی لیکن

چراغوں کو جلانے کا ہنر سب کو نہیں آتا

شہر کے پکے مکانوں میں دراریں آ گئیں

گاؤں کے کچے گھروں کی نیو پکی تھی بہت

وہ کہانی چھوڑتی ہے مدتوں اپنا اثر

جس کہانی کا کبھی کردار مرتا ہی نہیں

بہت دشوار ہے جینا کسی بھی بند کمرے میں

اگر ہو بند دروازہ تو کھڑکی کھول کر رکھنا

زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کر لی کسی نے

اور کوئی خودکشی کرتا رہا ہے زندگی بھر

جانے کتنی بار سکوں کو گنا کرتے تھے ہم

نوٹ کی گڈی نے ہم سے ریز گاری چھین لی

اب سمجھ آیا ہمیں یہ روح کیوں بے چین ہے

پھر رہے ہیں ذہن پر ہم بوجھ لادے جسم کا

ٹھیک ہو سکتے ہیں وہ جو جسم سے بیمار ہیں

ذہن سے بیمار ہیں جو ان کا درماں کچھ نہیں

دیری سے ملنے کا جو غم تجھ کو پریشاں کر رہا

اے دوست ہم بھی ہیں اسی تاخیر کے مارے ہوئے

وہ اشارہ کر کے پیچھے ہٹ گیا تھا ایک دن

اس اشارے کو سمجھنے میں لگا ہوں آج تک

نہ جانے زندگی کیا دیکھ کر رشتہ نبھاتی ہے

کسی کو دے دیا سب کچھ کسی کو کچھ نہیں ملتا

بات کرنا پیار کی آسان سے آسان ہے

عشق کرنا کرتے رہنا ہے کٹھن سے بھی کٹھن

بڑھ رہا ہے زندگی کا کینوس ہر دن مگر

رنگ گہرا اب نہیں دکھتا کسی تصویر میں

دھوپ جاڑا درد دنیا بھوک پتھر پیاس آنسو

جانے کس کس سے ملا ہوں زندگی تیرے لیے

زندگی جب سانس تیرے پاس ہی گروی رکھی ہے

کیوں نہیں دیتی ہمیں تو زندگی جینے کی مہلت

اک ترے کہنے سے میرا کم نہیں کردار ہوگا

یہ الگ ہے بات میں تیری کہانی میں نہیں ہوں

عجب یہ بات ہے ہر دم ہمارا سچ پرکھتا ہے

کبھی تو جھوٹ اس کا بھی کسوٹی پر کسا جائے

کسی کا جون کبھی ختم ہی نہیں ہوتا

کسی کے پاس دسمبر قیام کرتا ہے

ہے کوئی شامل ہماری زندگی کے فیصلوں میں

بچ کے جانا تھا جہاں سے ہم وہیں ٹکرا گئے ہیں

جانے کتنے ہی شناور عشق کے دریا میں ڈوبے

کیسے بچتا میں بھی اس دریا سے جو پیاسا بہت ہے

آگ سے رشتہ ہے میرا اور دریا بھی ہے اپنا

آئے دن دونوں کے جھگڑے میں الجھ کر رہ گیا ہوں

محبت کا نتیجہ ہے جو اب تک ساتھ ہیں دونوں

اگر کچھ اور ہوتا تو جدا ہم ہو گئے ہوتے

خاک سے پیدا ہوا ہے خاک میں مل جائے گا

ایک کلہڑ کی طرح ہے آدمی کی زندگی

کہیں کوئی دیا جلتا ہے تو اس کے اشارے پر

ہوا بھی اس کی مرضی سے چلا کرتی ہے دنیا میں

ساتھ بھی چھوٹا نہیں کوئی گلہ شکوہ نہیں

میں نکل کر آ گیا اس کی گلی سے اس طرح

دولت ملی تو زندگی میں آ گئی لذت مگر

آنکھوں سے نیندیں اڑ گئیں دل کا سکوں بھی چھن گیا

چراغوں کو جلانا ہے جلاؤ تم مگر پہلے

ہوا کے دل میں کیا ہے یہ پتہ کرنا ضروری ہے

خواب پورے ہو گئے تو لطف گھٹنے لگ گیا

زندگی سے کچھ شکایت دل میں رہنی چاہیئے

اچھے بھلے جو لوگ خد و خال سے لگے

لیکن وہ چال ڈھال سے کم ظرف تھے بہت

پہلے تو بولتے ہیں بھروسہ ہے آپ پر

پھر یہ بھی چاہتے ہیں وفا کا حساب دوں

لازم ہے انتظار کروں گا میں عمر بھر

ممکن اگر ہو تم بھی مری راہ دیکھنا

دیوار کے اس پار جانے کی تمنا ہے تو پھر

ہمت جٹا کر تم کبھی دیوار ڈھاتے کیوں نہیں

اتنا کہا گیا تھا کہ زیور اتار دیں

اور آپ نے زمین پہ ایمان رکھ دیا

ہر بات مان لینے میں نقصان یہ بھی ہے

امید اس کو حد سے زیادہ ہو جائے گی

اک روشنی عجب سی دکھی اس کتاب میں

جس میں لکھا تھا عشق عبادت سے کم نہیں

چاند تارے توڑ لانا یہ بھی کوئی کام ہے

ہر قدم پر ساتھ میرے عمر بھر چل کے دکھا

میرے کسی سوال کا دیتا نہیں جواب

کہتا ہے ہر سوال پہ کیسا سوال ہے

التجا کرتے ہوئے پیاسا پرندہ مر گیا

اب تو دریا کو حیا ث ڈوب مرنا چاہیئے

Recitation

بولیے