رضا عظیم آبادی کے اشعار
دیکھی تھی ایک رات تری زلف خواب میں
پھر جب تلک جیا میں پریشان ہی رہا
عمارت دیر و مسجد کی بنی ہے اینٹ و پتھر سے
دل ویرانہ کی کس چیز سے تعمیر ہوتی ہے
سو عید اگر زمانے میں لائے فلک ولیک
گھر سے ہمارے ماہ محرم نہ جائے گا
یا رب تو اس کے دل سے سدا رکھیو غم کو دور
جس نے کسی کے دل کو کبھی شادماں کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سب کچھ پڑھایا ہم کو مدرس نے عشق کے
ملتا ہے جس سے یار نہ ایسی پڑھائی بات
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رفو پھر کیجیو پیراہن یوسف کو اے خیاط
سیا جائے تو سی پہلے تو چاک دل زلیخا کا
کعبے میں شیخ مجھ کو سمجھے ذلیل لیکن
سو شکر میکدے میں ہے اعتبار اپنا
سنتے تو تھے رضاؔ ہیں سب ہیں بڑے مسلماں
پر کفر میں زیادہ نکلے وہ برہمن سے
اس چشم و دل نے کہنا نہ مانا تمام عمر
ہم پر خرابی لائی یہ گھر ہی کی پھوٹ پھاٹ
کیا کہیں اپنی سیہ بختی ہی کا اندھیر ہے
ورنہ سب کی ہجر کی رات ایسی کالی بھی نہیں
خواہ کافر مجھے کہہ خواہ مسلمان اے شیخ
بت کے ہاتھوں میں بکا یا ہوں خدا کی سوگند
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زخم کے لگتے ہی کیا کھل گئے چھاتی کے کواڑ
آگے یہ خانۂ دلچسپ ہوا دار نہ تھا
الٰہی چشم بد اس سے تو دور ہی رکھیو
کہ مست سخت ہوں میں اور ایاغ نازک تر
چلا ہے کعبے کو بت خانے سے رضاؔ یارو
کسی نے ایسا خدائی خراب دیکھا ہے
گر گریباں سیا تو کیا ناصح
سینے کا چاک بن سیا ہی رہا
ایسا کسی سے جنوں دست و گریباں نہ ہو
چاک گریباں کا بھی چاک گریباں کیا
نہ کعبہ ہے یہاں میرے نہ ہے بت خانہ پہلو میں
لیا کس گھر بسے نے آہ آ کر خانہ پہلو میں
اک دم کے واسطے نہ کیا کیا کیا اے رضاؔ
دیکھا چھپایا توڑا بنایا کہا سنا
نو مشق عشق ہیں ہم آہیں کریں عجب کیا
گیلی جلے گی لکڑی کیوں کر دھواں نہ ہوگا
کعبہ و دیر جدھر دیکھا ادھر کثرت ہے
آہ کیا جانے کدھر گوشۂ تنہائی ہے
ہم کو ملی ہے عشق سے اک آہ سوز ناک
وہ بھی اسی کی گرمئ بازار کے لئے
سو غمزے کے رکھتا ہے نگہبان پس و پیش
آتا ہے اکیلا پر اکیلا نہیں آتا
کس طرح رضاؔ تو نہ ہو دھوانے زمانہ
جب دل سا تری بیٹھا ہو بدنام بغل میں
جس طرح ہم رہے دنیا میں ہیں اس طرح رضاؔ
شیخ بت خانے میں کعبے میں برہمن نہ رہا
خوشا ہو کر بتاں کب عاشقوں کو یاد کرتے ہیں
رضاؔ حیراں ہوں میں کس بات پر ہے اتنا بھولا تو