صبا اکبرآبادی کے اشعار
اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک
رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں
اک روز چھین لے گی ہمیں سے زمیں ہمیں
چھینیں گے کیا زمیں کے خزانے زمیں سے ہم
سمجھے گا آدمی کو وہاں کون آدمی
بندہ جہاں خدا کو خدا مانتا نہیں
غلط فہمیوں میں جوانی گزاری
کبھی وہ نہ سمجھے کبھی ہم نہ سمجھے
آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم
بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
سو بار جس کو دیکھ کے حیران ہو چکے
جی چاہتا ہے پھر اسے اک بار دیکھنا
آپ آئے ہیں سو اب گھر میں اجالا ہے بہت
کہیے جلتی رہے یا شمع بجھا دی جائے
کب تک نجات پائیں گے وہم و یقیں سے ہم
الجھے ہوئے ہیں آج بھی دنیا و دیں سے ہم
اچھا ہوا کہ سب در و دیوار گر پڑے
اب روشنی تو ہے مرے گھر میں ہوا تو ہے
آئینہ کیسا تھا وہ شام شکیبائی کا
سامنا کر نہ سکا اپنی ہی بینائی کا
ایسا بھی کوئی غم ہے جو تم سے نہیں پایا
ایسا بھی کوئی درد ہے جو دل میں نہیں ہے
روشنی خود بھی چراغوں سے الگ رہتی ہے
دل میں جو رہتے ہیں وہ دل نہیں ہونے پاتے
کام آئے گی مزاج عشق کی آشفتگی
اور کچھ ہو یا نہ ہو ہنگامۂ محفل سہی
غم دوراں کو بڑی چیز سمجھ رکھا تھا
کام جب تک نہ پڑا تھا غم جاناں سے ہمیں
دوستوں سے یہ کہوں کیا کہ مری قدر کرو
ابھی ارزاں ہوں کبھی پاؤ گے نایاب مجھے
خواہشوں نے دل کو تصویر تمنا کر دیا
اک نظر نے آئنے میں عکس گہرا کر دیا
کمال ضبط میں یوں اشک مضطر ٹوٹ کر نکلا
اسیر غم کوئی زنداں سے جیسے چھوٹ کر نکلا
عشق آتا نہ اگر راہ نمائی کے لئے
آپ بھی واقف منزل نہیں ہونے پاتے
کب تک یقین عشق ہمیں خود نہ آئے گا
کب تک مکاں کا حال کہیں گے مکیں سے ہم
ابھی تو ایک وطن چھوڑ کر ہی نکلے ہیں
ہنوز دیکھنی باقی ہیں ہجرتیں کیا کیا
ازل سے آج تک سجدے کئے اور یہ نہیں سوچا
کسی کا آستاں کیوں ہے کسی کا سنگ در کیا ہے
رواں ہے قافلۂ روح التفات ابھی
ہماری راہ سے ہٹ جائے کائنات ابھی
گئے تھے نقد گرانمایۂ خلوص کے ساتھ
خرید لائے ہیں سستی عداوتیں کیا کیا
ہوس پرست ادیبوں پہ حد لگے کوئی
تباہ کرتے ہیں لفظوں کی عصمتیں کیا کیا
جب عشق تھا تو دل کا اجالا تھا دہر میں
کوئی چراغ نور بداماں نہیں ہے اب
کفر و اسلام کے جھگڑے کو چکا دو صاحب
جنگ آپس میں کریں شیخ و برہمن کب تک
پستی نے بلندی کو بنایا ہے حقیقت
یہ رفعت افلاک بھی محتاج زمیں ہے
بال و پر کی جنبشوں کو کام میں لاتے رہو
اے قفس والو قفس سے چھوٹنا مشکل سہی
کون اٹھائے عشق کے انجام کی جانب نظر
کچھ اثر باقی ہیں اب تک حیرت آغاز کے
کیا مآل دہر ہے میری محبت کا مآل
ہیں ابھی لاکھوں فسانے منتظر آغاز کے
مسافران رہ شوق سست گام ہو کیوں
قدم بڑھائے ہوئے ہاں قدم بڑھائے ہوئے
ٹکڑے ہوئے تھے دامن ہستی کے جس قدر
دلق گدائے عشق کے پیوند ہو گئے
اس شان کا آشفتہ و حیراں نہ ملے گا
آئینہ سے فرصت ہو تو تصویر صباؔ دیکھ