Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saba Akbarabadi's Photo'

صبا اکبرآبادی

1908 - 1991 | کراچی, پاکستان

صبا اکبرآبادی کے اشعار

15.3K
Favorite

باعتبار

اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک

رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں

اک روز چھین لے گی ہمیں سے زمیں ہمیں

چھینیں گے کیا زمیں کے خزانے زمیں سے ہم

سمجھے گا آدمی کو وہاں کون آدمی

بندہ جہاں خدا کو خدا مانتا نہیں

غلط فہمیوں میں جوانی گزاری

کبھی وہ نہ سمجھے کبھی ہم نہ سمجھے

آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم

کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم

بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے

آدمی آدمی اکیلا ہے

سو بار جس کو دیکھ کے حیران ہو چکے

جی چاہتا ہے پھر اسے اک بار دیکھنا

آپ آئے ہیں سو اب گھر میں اجالا ہے بہت

کہیے جلتی رہے یا شمع بجھا دی جائے

کب تک نجات پائیں گے وہم و یقیں سے ہم

الجھے ہوئے ہیں آج بھی دنیا و دیں سے ہم

اچھا ہوا کہ سب در و دیوار گر پڑے

اب روشنی تو ہے مرے گھر میں ہوا تو ہے

آئینہ کیسا تھا وہ شام شکیبائی کا

سامنا کر نہ سکا اپنی ہی بینائی کا

ایسا بھی کوئی غم ہے جو تم سے نہیں پایا

ایسا بھی کوئی درد ہے جو دل میں نہیں ہے

روشنی خود بھی چراغوں سے الگ رہتی ہے

دل میں جو رہتے ہیں وہ دل نہیں ہونے پاتے

کام آئے گی مزاج عشق کی آشفتگی

اور کچھ ہو یا نہ ہو ہنگامۂ محفل سہی

غم دوراں کو بڑی چیز سمجھ رکھا تھا

کام جب تک نہ پڑا تھا غم جاناں سے ہمیں

دوستوں سے یہ کہوں کیا کہ مری قدر کرو

ابھی ارزاں ہوں کبھی پاؤ گے نایاب مجھے

خواہشوں نے دل کو تصویر تمنا کر دیا

اک نظر نے آئنے میں عکس گہرا کر دیا

کمال ضبط میں یوں اشک مضطر ٹوٹ کر نکلا

اسیر غم کوئی زنداں سے جیسے چھوٹ کر نکلا

عشق آتا نہ اگر راہ نمائی کے لئے

آپ بھی واقف منزل نہیں ہونے پاتے

کب تک یقین عشق ہمیں خود نہ آئے گا

کب تک مکاں کا حال کہیں گے مکیں سے ہم

ابھی تو ایک وطن چھوڑ کر ہی نکلے ہیں

ہنوز دیکھنی باقی ہیں ہجرتیں کیا کیا

ازل سے آج تک سجدے کئے اور یہ نہیں سوچا

کسی کا آستاں کیوں ہے کسی کا سنگ در کیا ہے

رواں ہے قافلۂ روح التفات ابھی

ہماری راہ سے ہٹ جائے کائنات ابھی

گئے تھے نقد گرانمایۂ خلوص کے ساتھ

خرید لائے ہیں سستی عداوتیں کیا کیا

ہوس پرست ادیبوں پہ حد لگے کوئی

تباہ کرتے ہیں لفظوں کی عصمتیں کیا کیا

جب عشق تھا تو دل کا اجالا تھا دہر میں

کوئی چراغ نور بداماں نہیں ہے اب

کفر و اسلام کے جھگڑے کو چکا دو صاحب

جنگ آپس میں کریں شیخ و برہمن کب تک

پستی نے بلندی کو بنایا ہے حقیقت

یہ رفعت افلاک بھی محتاج زمیں ہے

بال و پر کی جنبشوں کو کام میں لاتے رہو

اے قفس والو قفس سے چھوٹنا مشکل سہی

کون اٹھائے عشق کے انجام کی جانب نظر

کچھ اثر باقی ہیں اب تک حیرت آغاز کے

کیا مآل دہر ہے میری محبت کا مآل

ہیں ابھی لاکھوں فسانے منتظر آغاز کے

مسافران رہ شوق سست گام ہو کیوں

قدم بڑھائے ہوئے ہاں قدم بڑھائے ہوئے

ٹکڑے ہوئے تھے دامن ہستی کے جس قدر

دلق گدائے عشق کے پیوند ہو گئے

اس شان کا آشفتہ و حیراں نہ ملے گا

آئینہ سے فرصت ہو تو تصویر صباؔ دیکھ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے