شاد لکھنوی کے اشعار
وصال یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
جوانی سے زیادہ وقت پیری جوش ہوتا ہے
بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہوتا ہے
عشق مژگاں میں ہزاروں نے گلے کٹوائے
عید قرباں میں جو وہ لے کے چھری بیٹھ گیا
-
موضوع : عید
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم نہ بگڑیں گے اگر چشم نمائی ہوگی
پھر کہیں آنکھ لڑائی تو لڑائی ہوگی
وہ نہا کر زلف پیچاں کو جو بکھرانے لگے
حسن کے دریا میں پنہاں سانپ لہرانے لگے
خدا کا ڈر نہ ہوتا گر بشر کو
خدا جانے یہ بندہ کیا نہ کرتا
وصل میں بیکار ہے منہ پر نقاب
شرم کا آنکھوں پہ پردہ چاہئے
چشم پوشوں سے رہوں شادؔ میں کیا آئینہ دار
منہ پہ کانا نہیں کہتا ہے کوئی کانے کو
مشکل میں کب کسی کا کوئی آشنا ہوا
تلوار جب گلے سے ملی سر جدا ہوا
صحبت وصل ہے مسدود ہیں در ہائے حجاب
نہیں معلوم یہ کس آہ سے شرم آتی ہے
جب جیتے جی نہ پوچھا پوچھیں گے کیا مرے پر
مردے کی روح کو بھی گھر سے نکالتے ہیں
پانی پانی ہو خجالت سے ہر اک چشم حباب
جو مقابل ہو مری اشک بھری آنکھوں سے
نشان میرؔ ہے ہم سے جو ہم مٹے اے شادؔ
یہ جان ریختہ گوئی گئی زمانے سے
رونے سے ایک پل نہیں مہلت فراق میں
یہ آنکھ کیا لگی مرے پیچھے بلا لگی
اس سے بہتر اور کہہ لیں گے اگر زندہ ہیں شادؔ
کھو گیا پہلا جو وہ دیوان کیا تھا کچھ نہ تھا
ہر ایک جواہر بیش بہا چمکا تو یہ پتھر کہنے لگا
جو سنگ ترا وہ سنگ مرا تو اور نہیں میں اور نہیں
مری بے رشتہ دلی سے اسے مزہ مل جائے
جگر کباب جو کوئی جلا بھنا مل جائے
پوچھا جو شباب بشری چشم فنا سے
پلکوں نے صدا دی کہ بھروسا نہیں پل کا
چشم تر نے بہا کے جوے سرشک
موج دریا کو دھار پر مارا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ