Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Siraj Faisal Khan's Photo'

سراج فیصل خان

1991 | شاہ جہاں پور, انڈیا

محبت، انا، درد اور عصری حسیت کی شاعری کے لیے مشہور

محبت، انا، درد اور عصری حسیت کی شاعری کے لیے مشہور

سراج فیصل خان کے اشعار

4.7K
Favorite

باعتبار

کتابوں سے نکل کر تتلیاں غزلیں سناتی ہیں

ٹفن رکھتی ہے میری ماں تو بستہ مسکراتا ہے

ہمیں رنجش نہیں دریا سے کوئی

سلامت گر رہے صحرا ہمارا

ترے احساس میں ڈوبا ہوا میں

کبھی صحرا کبھی دریا ہوا میں

دشت جیسی اجاڑ ہیں آنکھیں

ان دریچوں سے خواب کیا جھانکیں

شاید اگلی اک کوشش تقدیر بدل دے

زہر تو جب جی چاہے کھایا جا سکتا ہے

کئی دن بعد اس نے گفتگو کی

کئی دن بعد پھر اچھا ہوا میں

وہ ایک شخص جو دکھنے میں ٹھیک ٹھاک سا تھا

بچھڑ رہا تھا تو لگنے لگا حسین بہت

چاند بیٹھا ہوا ہے پہلو میں

قطرہ قطرہ پگھل رہا ہوں میں

آج میری اک غزل نے اس کے ہونٹوں کو چھوا

آج پہلی بار اپنی شاعری اچھی لگی

میں منتظر ہوں کسی ایسے وصل کا جس میں

مرے بدن پہ ترے جسم کا لباس رہے

وہ کبھی آغاز کر سکتے نہیں

خوف لگتا ہے جنہیں انجام سے

جیسے دیکھا ہو آخری سپنا

رات اتنی اداس تھیں آنکھیں

میں اچھا ہوں تبھی اپنا رہی ہو

کوئی مجھ سے بھی اچھا مل گیا تو

تم اس کو بلندی سے گرانے میں لگے ہو

تم اس کو نگاہوں سے گرا کیوں نہیں دیتے

جب سے حاصل ہوا ہے وہ مجھ کو

خواب آنے لگے بچھڑنے کے

بچھڑ جائیں گے ہم دونوں زمیں پر

یہ اس نے آسماں پر لکھ دیا ہے

میں تیرے ذکر کی وادی میں سیر کرتا رہوں

ہمیشہ لب پہ ترے نام کی مٹھاس رہے

کھلی آنکھوں سے بھی سویا ہوں اکثر

تمہارا راستہ تکتا ہوا میں

تو جا رہا تھا بچھڑ کے تو ہر قدم پہ ترے

پھسل رہی تھی مرے پاؤں سے زمین بہت

میں کہکشاؤں میں خوشیاں تلاشنے نکلا

مرے ستارہ میرا چاند سب اداس رہے

تعلق توڑ کر اس کی گلی سے

کبھی میں جڑ نہ پایا زندگی سے

دل کی دیوار پر سوا اس کے

رنگ دوجا کوئی چڑھا ہی نہیں

اس کے دل کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی

مجھ کو شہرت مل گئی الزام سے

کھلی جو آنکھ تو محشر کا شور برپا تھا

میں خوش ہوا کہ چلو آج مر گئی دنیا

خوف آتا ہے اپنے سائے سے

ہجر کے کس مقام پر ہوں میں

اس کی یادوں کی کائی پر اب تو

زندگی بھر مجھے پھسلنا ہے

لکھا ہے تاریخ کے صفحہ صفحہ پر یہ

شاہوں کو بھی داس بنایا جا سکتا ہے

میں سنگ میل تھا تو یہ کرنا پڑا مجھے

تا عمر راستے میں ٹھہرنا پڑا مجھے

خیال کب سے چھپا کے یہ من میں رکھا ہے

مرا قرار تمہارے بدن میں رکھا ہے

زمیں میرے سجدے سے تھرا گئی

مجھے آسماں سے پکارا گیا

تری حیات سے جڑ جاؤں واقعہ بن کر

تری کتاب میں میرا بھی اقتباس رہے

مالک مجھے جہاں میں اتارا ہے کس لئے

آدم کی بھول میرا خسارہ ہے کس لئے

وصل میں سوکھ گئی ہے مری سوچوں کی زمیں

ہجر آئے تو مری سوچ کو شاداب کرے

ہاتھ چھوٹا تو تیرگی میں تھا

ساتھ چھوٹا تو بجھ گئیں آنکھیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے