Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Siraj Lakhnavi's Photo'

سراج لکھنوی

1894 - 1968 | لکھنؤ, انڈیا

مشہور ما قبل جدید شاعر، شاعری میں جدیدیت کا رنگ نمایاں

مشہور ما قبل جدید شاعر، شاعری میں جدیدیت کا رنگ نمایاں

سراج لکھنوی کے اشعار

4.4K
Favorite

باعتبار

آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام

اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں

ہاں تم کو بھول جانے کی کوشش کریں گے ہم

تم سے بھی ہو سکے تو نہ آنا خیال میں

کہاں ہیں آج وہ شمع وطن کے پروانے

بنے ہیں آج حقیقت انہیں کے افسانے

آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے

اک ذرا آپ کو زحمت ہوگی

یہ آدھی رات یہ کافر اندھیرا

نہ سوتا ہوں نہ جاگا جا رہا ہے

کچھ اور مانگنا میرے مشرب میں کفر ہے

لا اپنا ہاتھ دے مرے دست سوال میں

اس سوچ میں بیٹھے ہیں جھکائے ہوئے سر ہم

اٹھے تری محفل سے تو جائیں گے کدھر ہم

عشق کا بندہ بھی ہوں کافر بھی ہوں مومن بھی ہوں

آپ کا دل جو گواہی دے وہی کہہ لیجئے

نماز عشق پڑھی تو مگر یہ ہوش کسے

کہاں کہاں کئے سجدے کہاں قیام کیا

آگ اور دھواں اور ہوس اور ہے عشق اور

ہر حوصلۂ دل کو محبت نہیں کہتے

قفس سے دور سہی موسم بہار تو ہے

اسیرو آؤ ذرا ذکر آشیاں ہو جائے

سجدۂ عشق پہ تنقید نہ کر اے واعظ

دیکھ ماتھے پہ ابھی چاند نمایاں ہوگا

کم ظرف کی نیت کیا پگھلا ہوا لوہا ہے

بھر بھر کے چھلکتے ہیں اکثر یہی پیمانے

اک کافر مطلق ہے ظلمت کی جوانی بھی

بے رحم اندھیرا ہے شمعیں ہیں نہ پروانے

آنکھوں پر اپنی رکھ کر ساحل کی آستیں کو

ہم دل کے ڈوبنے پر آنسو بہا رہے ہیں

اس دل میں تو خزاں کی ہوا تک نہیں لگی

اس پھول کو تباہ کیا ہے بہار نے

دم گھٹا جاتا ہے محبت کا

بند ہی بند گفتگو ہے ابھی

تجھے پا کے تجھ سے جدا ہو گئے ہم

کہاں کھو دیا تو نے کیا ہو گئے ہم

دیا ہے درد تو رنگ قبول دے ایسا

جو اشک آنکھ سے ٹپکے وہ داستاں ہو جائے

ضرب‌ المثل ہیں اب مری مشکل پسندیاں

سلجھا کے ہر گرہ کو پھر الجھا رہا ہوں میں

ٹکراؤں کیوں زمانے سے کیا فائدہ سراجؔ

خود اپنے راستے سے ہٹا جا رہا ہوں میں

ہر نفس اتنی ہی لو دے گا سراجؔ

جتنی جس دل میں حرارت ہوگی

خدا وندا یہ کیسی صبح غم ہے

اجالے میں برستی ہے سیاہی

نہ محتسب کی خوشامد نہ میکدے کا طواف

خودی میں مست ہوں اپنی بہار میں گم ہوں

وہ بھیڑ ہے کہ ڈھونڈھنا تیرا تو درکنار

خود کھویا جا رہا ہوں ہجوم خیال میں

آہ یہ آنسو پیارے پیارے

لکھ دے حساب غم میں ہمارے

رات بھر شمع جلاتا ہوں بجھاتا ہوں سراجؔ

بیٹھے بیٹھے یہی شغل شب تنہائی ہے

ذرا دیکھو یہ سرکش ذرۂ خاک

فلک کا چاند بنتا جا رہا ہے

خوشا وہ دور کہ جب مرکز نگاہ تھے ہم

پڑا جو وقت تو اب کوئی روشناس نہیں

قفس بھی بگڑی ہوئی شکل ہے نشیمن کی

یہ گھر جو پھر سے سنور جائے آشیاں ہو جائے

سوتا رہا ہونٹوں پہ تبسم کا سویرا

رہ رہ کے جگاتے رہے تقدیر سحر ہم

بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں

پڑا ہے کام بدلتے ہوئے زمانے سے

غسل توبہ کے لیے بھی نہیں ملتی ہے شراب

اب ہمیں پیاس لگی ہے تو کوئی جام نہیں

ہر اشک سرخ ہے دامان شب میں آگ کا پھول

بغیر شمع کے بھی جل رہے ہیں پروانے

ہو گیا آئنہ حال بھی گرد آلودہ

گود میں لاشئہ ماضی کو لیے بیٹھا ہوں

نہ پی سکو تو ادھر آؤ پونچھ دوں آنسو

یہ تم نے سن لئے اس دل کے سانحات کہاں

جو اشک سرخ ہے نامہ نگار ہے دل کا

سکوت شب میں لکھے جا رہے ہیں افسانے

ابھی رکھا رہنے دو طاق پر یوں ہی آفتاب کا آئنہ

کہ ابھی تو میری نگاہ میں وہی میرا ماہ تمام ہے

جان سی شے کی مجھے عشق میں کچھ قدر نہیں

زندگی جیسے کہیں میں نے پڑی پائی ہے

چراغ سجدہ جلا کے دیکھو ہے بت کدہ دفن زیر کعبہ

حدود اسلام ہی کے اندر یہ سرحد کافری ملے گی

کیسے پھاندے گا باغ کی دیوار

تو گرفتار رنگ و بو ہے ابھی

حیران ہیں اب جائیں کہاں ڈھونڈنے تم کو

آئینۂ ادراک میں بھی تم نہیں رہتے

لہو میں ڈوبی ہے تاریخ خلقت انساں

ابھی یہ نسل ہے شائستۂ حیات کہاں

خبر رہائی کی مل چکی ہے چراغ پھولوں کے جل رہے ہیں

مگر بڑی تیز روشنی ہے قفس کا در سوجھتا نہیں ہے

یہ جزر و مد ہے پاداش عمل اک دن یقینی ہے

نہ سمجھو خون انساں بہہ گیا ہے رائیگاں ہو کر

آنسو ہیں کفن پوش ستارے ہیں کفن رنگ

لو چاک کئے دیتے ہیں دامان سحر ہم

چمک شاید ابھی گیتی کے ذروں کی نہیں دیکھی

ستارے مسکراتے کیوں ہیں زیب آسماں ہو کر

دام بر دوش پھریں چاہے وہ گیسو بر دوش

صید بن بن کے ہمیں نے انہیں صیاد کیا

چند تنکوں کی سلیقے سے اگر ترتیب ہو

بجلیوں کو بھی طواف آشیاں کرنا پڑے

پھر بھی پیشانیٔ طوفاں پہ شکن باقی ہے

ڈوبتے وقت بھی دیکھا نہ کنارہ ہم نے

Recitation

بولیے