سراج لکھنوی کے اشعار
آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام
اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں
ہاں تم کو بھول جانے کی کوشش کریں گے ہم
تم سے بھی ہو سکے تو نہ آنا خیال میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہاں ہیں آج وہ شمع وطن کے پروانے
بنے ہیں آج حقیقت انہیں کے افسانے
آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے
اک ذرا آپ کو زحمت ہوگی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ آدھی رات یہ کافر اندھیرا
نہ سوتا ہوں نہ جاگا جا رہا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ اور مانگنا میرے مشرب میں کفر ہے
لا اپنا ہاتھ دے مرے دست سوال میں
اس سوچ میں بیٹھے ہیں جھکائے ہوئے سر ہم
اٹھے تری محفل سے تو جائیں گے کدھر ہم
عشق کا بندہ بھی ہوں کافر بھی ہوں مومن بھی ہوں
آپ کا دل جو گواہی دے وہی کہہ لیجئے
نماز عشق پڑھی تو مگر یہ ہوش کسے
کہاں کہاں کئے سجدے کہاں قیام کیا
آگ اور دھواں اور ہوس اور ہے عشق اور
ہر حوصلۂ دل کو محبت نہیں کہتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قفس سے دور سہی موسم بہار تو ہے
اسیرو آؤ ذرا ذکر آشیاں ہو جائے
-
موضوع : زنداں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سجدۂ عشق پہ تنقید نہ کر اے واعظ
دیکھ ماتھے پہ ابھی چاند نمایاں ہوگا
کم ظرف کی نیت کیا پگھلا ہوا لوہا ہے
بھر بھر کے چھلکتے ہیں اکثر یہی پیمانے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک کافر مطلق ہے ظلمت کی جوانی بھی
بے رحم اندھیرا ہے شمعیں ہیں نہ پروانے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آنکھوں پر اپنی رکھ کر ساحل کی آستیں کو
ہم دل کے ڈوبنے پر آنسو بہا رہے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس دل میں تو خزاں کی ہوا تک نہیں لگی
اس پھول کو تباہ کیا ہے بہار نے
دم گھٹا جاتا ہے محبت کا
بند ہی بند گفتگو ہے ابھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تجھے پا کے تجھ سے جدا ہو گئے ہم
کہاں کھو دیا تو نے کیا ہو گئے ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیا ہے درد تو رنگ قبول دے ایسا
جو اشک آنکھ سے ٹپکے وہ داستاں ہو جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ضرب المثل ہیں اب مری مشکل پسندیاں
سلجھا کے ہر گرہ کو پھر الجھا رہا ہوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ٹکراؤں کیوں زمانے سے کیا فائدہ سراجؔ
خود اپنے راستے سے ہٹا جا رہا ہوں میں
ہر نفس اتنی ہی لو دے گا سراجؔ
جتنی جس دل میں حرارت ہوگی
نہ محتسب کی خوشامد نہ میکدے کا طواف
خودی میں مست ہوں اپنی بہار میں گم ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ بھیڑ ہے کہ ڈھونڈھنا تیرا تو درکنار
خود کھویا جا رہا ہوں ہجوم خیال میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رات بھر شمع جلاتا ہوں بجھاتا ہوں سراجؔ
بیٹھے بیٹھے یہی شغل شب تنہائی ہے
ذرا دیکھو یہ سرکش ذرۂ خاک
فلک کا چاند بنتا جا رہا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خوشا وہ دور کہ جب مرکز نگاہ تھے ہم
پڑا جو وقت تو اب کوئی روشناس نہیں
قفس بھی بگڑی ہوئی شکل ہے نشیمن کی
یہ گھر جو پھر سے سنور جائے آشیاں ہو جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سوتا رہا ہونٹوں پہ تبسم کا سویرا
رہ رہ کے جگاتے رہے تقدیر سحر ہم
بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
پڑا ہے کام بدلتے ہوئے زمانے سے
غسل توبہ کے لیے بھی نہیں ملتی ہے شراب
اب ہمیں پیاس لگی ہے تو کوئی جام نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر اشک سرخ ہے دامان شب میں آگ کا پھول
بغیر شمع کے بھی جل رہے ہیں پروانے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہو گیا آئنہ حال بھی گرد آلودہ
گود میں لاشئہ ماضی کو لیے بیٹھا ہوں
نہ پی سکو تو ادھر آؤ پونچھ دوں آنسو
یہ تم نے سن لئے اس دل کے سانحات کہاں
جو اشک سرخ ہے نامہ نگار ہے دل کا
سکوت شب میں لکھے جا رہے ہیں افسانے
ابھی رکھا رہنے دو طاق پر یوں ہی آفتاب کا آئنہ
کہ ابھی تو میری نگاہ میں وہی میرا ماہ تمام ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جان سی شے کی مجھے عشق میں کچھ قدر نہیں
زندگی جیسے کہیں میں نے پڑی پائی ہے
چراغ سجدہ جلا کے دیکھو ہے بت کدہ دفن زیر کعبہ
حدود اسلام ہی کے اندر یہ سرحد کافری ملے گی
کیسے پھاندے گا باغ کی دیوار
تو گرفتار رنگ و بو ہے ابھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حیران ہیں اب جائیں کہاں ڈھونڈنے تم کو
آئینۂ ادراک میں بھی تم نہیں رہتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لہو میں ڈوبی ہے تاریخ خلقت انساں
ابھی یہ نسل ہے شائستۂ حیات کہاں
خبر رہائی کی مل چکی ہے چراغ پھولوں کے جل رہے ہیں
مگر بڑی تیز روشنی ہے قفس کا در سوجھتا نہیں ہے
یہ جزر و مد ہے پاداش عمل اک دن یقینی ہے
نہ سمجھو خون انساں بہہ گیا ہے رائیگاں ہو کر
آنسو ہیں کفن پوش ستارے ہیں کفن رنگ
لو چاک کئے دیتے ہیں دامان سحر ہم
چمک شاید ابھی گیتی کے ذروں کی نہیں دیکھی
ستارے مسکراتے کیوں ہیں زیب آسماں ہو کر
دام بر دوش پھریں چاہے وہ گیسو بر دوش
صید بن بن کے ہمیں نے انہیں صیاد کیا
چند تنکوں کی سلیقے سے اگر ترتیب ہو
بجلیوں کو بھی طواف آشیاں کرنا پڑے
پھر بھی پیشانیٔ طوفاں پہ شکن باقی ہے
ڈوبتے وقت بھی دیکھا نہ کنارہ ہم نے