Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

ولی اللہ محب

- 1792 | لکھنؤ, انڈیا

ولی اللہ محب کے اشعار

5.1K
Favorite

باعتبار

ہے مرے پہلو میں اور مجھ کو نظر آتا نہیں

اس پری کا سحر یارو کچھ کہا جاتا نہیں

ساقی ہمیں قسم ہے تری چشم مست کی

تجھ بن جو خواب میں بھی پئیں مے حرام ہو

دونوں تیری جستجو میں پھرتے ہیں در در تباہ

دیر ہندو چھوڑ کر کعبہ مسلماں چھوڑ کر

دیر میں کعبے میں میخانے میں اور مسجد میں

جلوہ گر سب میں مرا یار ہے اللہ اللہ

نہ کیجے وہ کہ میاں جس سے دل کوئی ہو ملول

سوائے اس کے جو جی چاہے سو کیا کیجے

دوستی چھوٹے چھڑائے سے کسو کے کس طرح

بند ہوتا ہی نہیں رستہ دلوں کی راہ کا

ان دو کے سوا کوئی فلک سے نہ ہوا پار

یا تیر مری آہ کا یا اس کی نظر کا

کعبہ میں وہی خود ہے وہی دیر میں ہے آپ

ہندو کہو یا اس کو مسلمان وہی ہے

کچھ نہ دیکھا کسی مکان میں ہم

کہتے ہیں لا مکان میں کچھ ہے

بہ تسخیر بتاں تسبیح کیوں زاہد پھراتے ہیں

یہ لوہے کے چنے واللہ عاشق ہی چباتے ہیں

دریائے محبت سے محبؔ لے ہی کے چھوڑی

مجھ اشک نے آخر در نایاب کی میراث

برہمن دیر کو راہی ہوا اور شیخ کعبے کو

نکل کر اس دوراہے سے میں کوئے یار میں آیا

جو از خود رفتہ ہے گمراہ ہے وہ رہنما میرا

جو اک عالم سے ہے بیگانہ ہے وہ آشنا میرا

شیخ کہتے ہیں مجھے دیر نہ جا کعبہ چل

برہمن کہتے ہیں کیوں یاں بھی خدا ہے کہ نہیں

یہ داڑھی محتسب نے دخت رز کے پھاڑ کھانے کو

لیا ہے منہ پر اپنے ڈال برقع بے حیائی کا

رحیم و رام کی سمرن ہے شیخ و ہندو کو

دل اس کے نام کی رٹنا رٹے ہے کیا کیجے

جو اپنے جیتے جی کو کنوئیں میں ڈبوئیے

تو چاہ میں کسی کی گرفتار ہوئیے

جب نشے میں ہم نے کچھ میٹھے کی خواہش اس سے کی

ترش ہو بولا کہ کیوں بے تو بھی اس لائق ہوا

کافر ہوں گر میں نام بھی کعبے کا لوں کبھی

وہ سنگ دل صنم جو کبھو مجھ سے رام ہو

تمام خلق خدا زیر آسماں کی سمیٹ

زمیں نے کھائی ولیکن بھرا نہ اس کا پیٹ

عشق جب دخل کرے ہے دل انساں میں محبؔ

واہمے سب بشریت کے کرے ہے اخراج

رقیب جم کے یہ بیٹھا کہ ہم اٹھے ناچار

یہ پتھر اب نہ ہٹائے ہٹے ہے کیا کیجے

خط کا یہ جواب آیا کہ قاصد گیا جی سے

سر ایک طرف لوٹے ہے اور ایک طرف دھڑ

اشک باری سے غم و درد کی کھیتی باڑی

لہلہی سی نظر آتی ہے ہری رہتی ہے

کاش ہم ناکام بھی کام آئیں تیرے عشق میں

مطلقاً ناکارہ ہیں دنیا و دیں کے کام سے

ہو گدھے پر سوار جا کعبہ

شیخ یہ کوچ ہے سلامت کا

نہ طے ایک رکعت کی منزل ہوئی

سفر شیخ جی کے وضو نے کیا

بہ معنی کفر سے اسلام کب خالی ہے اے زاہد

نکل سبحے سے رشتہ صورت زنار ہو پیدا

گرتے ہیں دکھ سے تیری جدائی کے ورنہ خیر

چنگے بھلے ہیں کچھ نہیں آزار ہے ہمیں

ارے او خانہ آباد اتنی خوں ریزی یہ قتالی

کہ اک عاشق نہیں کوچہ ترا ویران سونا ہے

پھولوں کی سیج دوست کی خاطر محبؔ بچھاؤ

کانٹے رکھو ببول کے اعداؤں کے تلے

ترے کلام نے کیسا اثر کیا واعظ

کہ دل زیادہ تر آوارہ ہو گیا واعظ

جون سے رستے وہ ہو نکلے ادھر پہروں تلک

ہو ہجوم خلق سے کوچہ گلی بازار بند

درس علم عشق سے واقف نہیں مطلق فقیہ

نحو ہی میں محو ہے یا صرف ہی میں صرف ہے

شیخ ہے تجھ کو ہی انکار صنم میرے سے

ورنہ ہر شخص کو اقرار ہے اللہ اللہ

تم گاؤ اپنے راگ کو اس پاس واعظو

مشتاق جو گدھا ہو تمہارے الاپ کا

میں ہوں اور ساقی ہو اور ہوں راس و چپ یہ وہ بہم

جام دست چپ کے پاس اور شیشہ دست راس پاس

اے دل تجھے کرنی ہے اگر عشق سے بیعت

زنہار کبھو چھوڑیو مت سلسلۂ درد

اے بندہ پرور اتنا لازم ہے کیا تکلف

اٹھئے غریب خانے چلئے بلا تکلف

یہ جوں جوں وعدے کے دن رات پڑتے جاتے ہیں

گھڑی گھڑی میں مرا جی کٹے ہے کیا کیجے

وہ جو لیلیٰ ہے مرے دل میں سنے اس کا جو شور

قیس نکلے گور سے باہر کفن کو چیر پھاڑ

دیوانگی کے سلسلہ کا ہوئے جو مرید

اس گیسوئے دراز سوا پیر ہی نہیں

جلتا ہے کہ خورشید کی اک روٹی ہو تیار

لے شام سے تا صبح تنور شب مہتاب

راگ اپنا گا ہمارا ذکر مت کر اے رقیب

جب ستاوے گا ہمیں تب لیں گے ہم اک دھول تھاپ

ہم دگر مومن کو ہے ہر بزم میں تکفیر جنگ

نیک صلح کل ہے بد ہے با جوان و پیر جنگ

فصل خزاں میں باغ مذاہب کی کی جو سیر

ہے ہر طرف بہار گل جعفری سے آج

اس کے کوچے ہی میں آ نکلوں ہوں جاؤں جس طرف

میں تو دیوانہ ہوں اپنے اس دل گمراہ کا

کعبہ جانے کی ہوس شیخ ہمیں بھی ہے ولے

کوچۂ یار قیامت ہے ہوا دار عزیز

اسلام میں یہ کیسا انکار کفر سے ہے

تسبیح میں پروئے زنار ہے تعجب

سخن جن کے کہ صورت جوں گہر ہے بحر معنی میں

عبث غلطاں رکھے ہے فکر ان کے آب و دانے کا

Recitation

بولیے