Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Siraj Aurangabadi's Photo'

سراج اورنگ آبادی

1712 - 1764 | اورنگ آباد, انڈیا

صوفی شاعر جن کی مشہور غزل ’خبر تحیر عشق ‘ بہت گائی گئی ہے

صوفی شاعر جن کی مشہور غزل ’خبر تحیر عشق ‘ بہت گائی گئی ہے

سراج اورنگ آبادی کے اشعار

5.1K
Favorite

باعتبار

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا

کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

ڈوب جاتا ہے مرا جی جو کہوں قصۂ درد

نیند آتی ہے مجھی کوں مرے افسانے میں

دیکھا ہے جس نے یار کے رخسار کی طرف

ہرگز نہ جاوے سیر کوں گل زار کی طرف

عشق اور عقل میں ہوئی ہے شرط

جیت اور ہار کا تماشا ہے

فدا کر جان اگر جانی یہی ہے

ارے دل وقت بے جانی یہی ہے

دو رنگی خوب نہیں یک رنگ ہو جا

سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا

مت کرو شمع کوں بد نام جلاتی وہ نہیں

آپ سیں شوق پتنگوں کو ہے جل جانے کا

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی

نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

بولتا ہوں جو وو بلاتا ہے

تن کے پنجرے میں اس کا طوطا ہوں

کہتے ہیں تری زلف کوں دیکھ اہل شریعت

قربان ہے اس کفر پر ایمان ہمارا

تمہاری زلف کا ہر تار موہن

ہوا میرے گلے کا ہار موہن

عشق دونوں طرف سوں ہوتا ہے

کیوں بجے ایک ہات سوں تالی

عشق کا نام گرچہ ہے مشہور

میں تعجب میں ہوں کہ کیا شے ہے

وقت ہے اب نماز مغرب کا

چاند رخ لب شفق ہے گیسو شام

ہجر کی راتوں میں لازم ہے بیان زلف یار

نیند تو جاتی رہی ہے قصہ خوانی کیجئے

نیاز بے خودی بہتر نماز خود نمائی سیں

نہ کر ہم پختہ مغزوں سیں خیال خام اے واعظ

کبھی تم موم ہو جاتے ہو جب میں گرم ہوتا ہوں

کبھی میں سرد ہوتا ہوں تو تم بھڑکاؤ کرتے ہو

نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن

کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے

کیا پوچھتے ہو تم کہ ترا دل کدھر گیا

دل کا مکاں کہاں یہی دل دار کی طرف

نہ ملے جب تلک وصال اس کا

تب تلک فوت ہے مرا مطلب

مکتب عشق کا معلم ہوں

کیوں نہ ہوئے درس یار کی تکرار

جینا تڑپ تڑپ کر مرنا سسک سسک کر

فریاد ایک جی ہے کیا کیا خرابیوں میں

تری ابرو ہے محراب محبت

نماز عشق میرے پر ہوئی فرض

آنکھ اٹھاتے ہی مرے ہاتھ سیں مجھ کوں لے گئے

خوب استاد ہو تم جان کے لے جانے میں

وصل کے دن شب ہجراں کی حقیقت مت پوچھ

بھول جانی ہے مجھے صبح کوں پھر شام کی بات

مرہم ترے وصال کا لازم ہے اے صنم

دل میں لگی ہے ہجر کی برچھی کی ہول آج

کفر و ایماں دو ندی ہیں عشق کیں

آخرش دونو کا سنگم ہووے گا

کبھی لا لا مجھے دیتے ہو اپنے ہات سیں پیالا

کبھی تم شیشۂ دل پر مرے پتھراؤ کرتے ہو

زندگانی درد سر ہے یار بن

کوئی ہمارے سر کوں آ کر جھاڑ دے

نیند سیں کھل گئیں مری آنکھیں سو دیکھا یار کوں

یا اندھارا اس قدر تھا یا اجالا ہو گیا

مشتاق ہوں تجھ لب کی فصاحت کا ولیکن

رانجھاؔ کے نصیبوں میں کہاں ہیرؔ کی آواز

سنا ہے جب سیں تیرے حسن کا شور

لیا زاہد نے مسجد کا کنارا

پکڑا ہوں کنارۂ جدائی

جاری مرے اشک کی ندی ہے

ڈورے نہیں ہیں سرخ تری چشم مست میں

شاید چڑھا ہے خون کسی بے گناہ کا

روزہ داران جدائی کوں خم ابروئے یار

ماہ عید رمضاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

مفتیٔ ناز نے دیا فتویٰ

خون عاشق حلال کرتا ہے

جس کوں پیو کے ہجر کا بیراگ ہے

آہ کا مجلس میں اس کی راگ ہے

کھل گئے اوس کی زلف کے دیکھے

پیچ دستار زاہد مکار

ہماری بات محبت سیں تم جو گوش کرو

تو اپنی پریم کہانی تمہیں سناؤں گا

سراجؔ ان خوب رویوں کا عجب میں قاعدہ دیکھا

بلاتے ہیں دکھاتے ہیں لبھاتے ہیں چھپاتے ہیں

کان میں ہے تیرے موتی آب دار

یا کسی عاشق کا آنسو بولنا

نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں کروں بیاں

کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی

عبث ان شہریوں میں وقت اپنا ہم کئے ضائع

کسی مجنوں کی صحبت بیٹھ دیوانے ہوئے ہوتے

تحقیق کی نظر سیں آخر کوں ہم نے دیکھا

اکثر ہیں مال والے کم ہیں کمال والے

مجھ رنگ زرد اوپر غصے سیں لال مت ہو

اے سبز شال والے اودے رومال والے

بت پرستوں کوں ہے ایمان حقیقی وصل بت

برگ گل ہے بلبلوں کوں جلد قرآن مجید

کیا ہے جب سیں عمل بے خودی کے حاکم نے

خرد نگر کی رعیت ہوئی ہے رو بگریز

دل لے گیا ہے مجھ کوں دے امید دل دہی

ظالم کبھی تو لائے گا میرا لیا ہوا

حاکم عشق نے جب عقل کی تقصیر سنی

ہو غضب حکم دیا دیس نکالا کرنے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے