aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "احترام"
احترام اسلام
born.1949
شاعر
کیف احمد صدیقی
1943 - 1986
سیداحتشام حسین
1912 - 1972
مصنف
اہتمام صادق
born.1993
زین احترام
احتشام اختر
born.1944
راز احتشام
born.1994
کلیم عثمانی
1928 - 2000
احتشام الحق صدیقی
احتشام علی
born.1983
شبیر عالم احرام
احتشام حسن
born.1969
احتشام بچھرایونی
born.1939
منزہ احتشام گوندل
born.1984
احترام الدین احمد شاغل
1896 - 1971
ہم تو آئے تھے عرض مطلب کواور وہ احترام کر رہے ہیں
مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہےمیں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
کہاں بساط جہاں اور میں کمسن و ناداںیہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے
عشق کو پوچھتا نہیں کوئیحسن کا احترام ہوتا ہے
ہے احترام حضرت انسان میرا دینبے دین ہو گیا ہوں مجھے مار دیجئے
ذیشان ساحل اردو نظم کے منفرد اور حساس لہجے کے شاعر ہیں جنہوں نے جدید دور کی پیچیدہ کیفیات کو سادہ مگر گہرے استعاروں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ ان کی نظموں میں ایک خاموش احتجاج، ایک تہہ دار تنقید، اور ایک فکری نرمی پائی جاتی ہے جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ان کے ہاں دکھ، خاموشی، اور وقت جیسے موضوعات کا جمالیاتی اظہار نمایاں ہے۔
مرزاغالبؔ بلاشبہ اردو کے ایسے عظیم شاعرہیں جنھیں عالمی ادب کے چنندہ شاعروں کی فہرست میں فخر کے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے۔ غالبؔ کی شاعری کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے کلام میں بڑی تعداد میں موقع کی مناسبت سے استعمال کئے جانے والے اشعار موجود ہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ غالبؔ کے ۲۰ بہترین اشعار جو ضرب ا لمثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں آپ حضرات کے لئے یکجا کئے جائیں۔ غالبؔ کے کلام سے صرف ۲۰ اشعار کا انتخاب کرنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ہمیں اعتراف ہے کہ غالب ؔ کے کئی بہترین اشعار ہماری فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں۔ از راہ کرم ہمیں اپنی پسند کے ایسے اشعار کی بلا تکلف نشاندہی فرمائیں جو اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے ہوں۔ ہمارا ادارتی عملہ آپ کے تجویز کردہ اشعار کو ٹاپ ۲۰ فہرست میں شامل کرنے پر غور کرے گا۔ امید ہے آپ اس انتخاب سے محظوظ ہونگے اور اس فہرست کو مزید بہتر بنانے میں ریختہ کے ساتھ تعاون کریں گے اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہیں گے۔
مجبوری زندگی میں تسلسل کے ساتھ پیش آنے والی ایک صورتحال ہے جس میں انسان کی جو تھوڑی بہت خود مختاریت ہے وہ بھی ختم ہوجاتی ہے اور انسان پوری طرح سے مجبور ہوجاتا ہے ۔ مجبور ہونا ایک تکلیف دہ احساس کو جنم دیتا ہے اور یہیں سے وہ شاعری پیدا ہوتی ہے جس میں بعض مرتبہ احتجاج بھی ہوتا ہے اور بعض مرتبہ حالات کے مقابلے میں سپر انداز ہونے کی کیفیت بھی ۔ ہم اس طرح کے شعروں کا ایک چھوٹا سا انتخاب پیش کر رہے ہیں ۔
एहतिरामاحترام
respect, honoring, paying attention
صحیفۂ خوشنویساں
تذکرہ شعرائے جے پور
گئودان کا تنقیدی مطالعہ
سید احتشام احمد ندوی
ناول تنقید
جدید عربی ادب کا ارتقا
تاریخ
احتساب العروض
کندن اراولی
علم عروض / عروض
تحریر قدرت
احتشام الدین احمد عبرت
روشنی کم تپش زیادہ
علی اقبال
مقالات/مضامین
ادب جے پور کا ماضی و حال
تذکرہ
سلاطین ہند
انتظام اللہ شہابی
ہندوستانی تاریخ
عربی شاعری کے جدید رجحانات
ادبی تحریکیں
تذکرۃ الکرام
محمود احمد عباسی
ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء
غالب کے لطیفے
لطیفے
اہرام
رائیڈر ہیگرڈ
ناول
علاج بذریعہ غذا
حکیم احتشام الحق قریشی
طب
دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سر و سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شا کر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے، تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کئے ہوئے ہے۔
نہاں ہے تیری محبت میں رنگ محبوبیبڑی ہے شان بڑا احترام ہے تیرا
رہ جنوں میں لپٹتے ہیں پاؤں سے کانٹےبہ ہر قدم یہ مرا احترام ہوتا ہے
جب احترام کیا کرتی تھی صبا میرابہار کھوج لیا کرتی تھی پتہ میرا
اٹھا ہوٹل کا پردہ، سامنے پردہ نشیں آئےجو چھپ کر کر رہے تھے احترام حکم دیں آئے
رہے خیال کہ آئے نہ احترام میں فرقاگر کسی سے ترا اختلاف ہو جائے
میں زاہد نہیں ہوں، اور نہ میں نے کبھی اس کا دعویٰ کیا ہے۔ گناہ و ثواب اور سزا و جزا کے متعلق میرے خیالات دوسروں سے جدا ہیں اور یقیناًتمہارے خیالات سے بھی بہت مختلف ہیں۔ میں اس وقت ان بحثوں میں نہیں پڑنا چاہتا ،اس لیے کہ اس کے لیے سکون قلب اور وقت درکار ہے۔برسیبل تذکرہ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے تم میرے خیالات کے متعلق کچھ اندازہ لگا سکو گے۔باتوں باتوں میں ایک مرتبہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ حسن اگر پورے شباب اور جوبن پر ہو تو وہ دلکشی کھو دیتا ہے۔ مجھے اب بھی اس خیال پر ایمان ہے۔ مگر میرے دوست نے اسے مہمل منطق قراردیا۔ ممکن ہے تمہاری نگاہ میں بھی یہ مہمل ہو۔ مگر میں تم سے اپنے دل کی بات کہتا ہوں۔ اس حسن نے میرے دل کو اپنی طرف راغب نہیں کیا جو پورے شباب پر ہو۔ اس کو دیکھ کر میری آنکھیں ضرور چندھیا جائیں گی۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس حسن نے اپنی تمام کیفیتیں میرے دل و دماغ پر طاری کردی ہیں۔ شوخ اور بھڑکیلے رنگ اس بلندی تک کبھی نہیں جا سکتے جو نرم و نازک الوان و خطوط کو حاصل ہے۔ وہ حسن یقیناًقابل احترام ہے جو آہستہ آہستہ نگاہوں میں جذب ہو کر دل میں اتر جائے۔ روشنی کا خیرہ کن شعلہ دل کے بجائے اعصاب پر اثر انداز ہوتا ہے۔۔۔ لیکن اس فضول بحث میں پڑنے سے کیا فائدہ۔
دنیا میں احترام کے قابل وہ لوگ ہیںاے ذلت وفا تری عزت جنہوں نے کی
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔ ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آکر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’پور لیٹل سو ل‘‘ اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گیے تھے۔ تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شان استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
ترلوچن خوبصورت تھا۔ جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اگی تھی تو واقعی لوگ اس کو کھلے کیسوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔ مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدوخال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپا لیے تھے۔ اس کو اس کا احساس تھا۔ مگر وہ ایک اطاعت شعار اورفرماں بردار لڑکا تھا۔ اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا۔ وہ نہیں چاہ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books