aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ہدایتوں"
فرحت ندیم ہمایوں
شاعر
شاہ دین ہمایوں
1868 - 1918
ہدایت اللہ خان شمسی
born.1970
سید ہمایوں میرزا حقیر
مصنف
صغرا ہمایوں مرزا
1884 - 1959
ہدایت اللہ
محمد ہمایوں
born.1973
ہمایوں اشرف
حکیم محمد ہدایت علی شفق
ہمایوں کبیر
محمد ہدایت علی نقشبندی
ہمایوں اقبال
born.1941
ہمایوں ادیب
صادق ہدایت
ہمایوں فانوس
سلیمہ کی جب شادی ہوئی تو وہ اکیس برس کی تھی۔ پانچ برس ہوگئے مگر اس کے اولاد نہ ہوئی۔ اس کی ماں اور ساس کو بہت فکرتھی۔ ماں کو زیادہ تھی کہ کہیں اس کا نجیب دوسری شادی نہ کرلے۔ چنانچہ کئی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا گیا مگر کوئی بات پیدا نہ ہوئی۔ سلیمہ بہت متفکر تھی۔ شادی کے بعد بہت کم لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو اولاد کی خواہش مند نہ ہوں۔ اس نے اپنی ماں سے کئی بار مشورہ کیا۔ ماں کی ہدایتوں پر بھی عمل کیامگر نتیجہ صفرتھا۔ ایک دن اس کی ایک سہیلی جو بانجھ قرار دے دی گئی تھی، اس کے پاس آئی۔ سلیمہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس کی گود میں ایک گل گوتھنا لڑکا تھا۔ سلیمہ نے اس سے بڑے بینڈے انداز میں پوچھا،’’فاطمہ تمہارے یہ لڑکا کیسے پیدا ہوگیا؟‘‘
ہدایتوں کا ہے محتاج نامہ بر کی طرحفقیہہ شہر طلسم بیاں کے ہوتے ہوئے
کبھی تو کشت زعفراںکبھی اداسیوں کا بن
’’ارے چپ چپ دیکھ بھیا آیا ہے صبح کو دیکھومنا سا بھیا‘‘ مگر صبح کو منا سا بھیا دیکھ سکنے کی امید انہیں اس وقت تک کوئی تسکین نہ دے سکتی اور ان کی روں روں دھاڑوں کی شکل میں تبدیل ہو کر کمرہ کے خلفشار میں اور اضافہ کر دیتی۔ یہ تو خیر جو کچھ تھا سو تھا، کثیف بستروں پر لیپ چڑھے ہوئے تکیوں، پسینے میں سڑے ہوئے کپڑوں اور مدتوں سے نہ دھلے ہوئے بالوں کی بدبو ...
گو نمرود کی شخصیت کا اب تک سراغ نہیں مل سکا ہے لیکن گدھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر آسمان پر جانے کا قصہ قدیم بابلی (بیسویں صدی قبل مسیح) اشوری اور نواشوری عہد کے کئی نوشتوں میں ملا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گدھ کی داستان بہت پرانی ہے۔ سومیر کی فہرست شاہان میں کیش کے ایک بادشاہ اتانا کا ذکر آیا ہے جو گڈریا تھا اور آسمان پر گیا تھا۔ قدیم عکادی عہد کی ای...
ایسی ممنوعہ کتابیں جو نام نہاد سماجی اخلاقیات یا موجودہ حکومتی نظام کی سیاسی دھاندلیوں، معاشی بدعنوانیوں یا سماجی استحصال کو بے نقاب کرنے والی، للکارنے والی اور اس کے خلاف بغاوت پر ابھارنے والی تحریریں اکثر پابندیوں کی زد میں آتی رہیں ہیں، جنہیں غیر قانونی قرار دیا گیا، جن پر باقاعدہ مقدمہ بازی ہوئی اور کئی ادیبوں کو جیل تک جانا پڑا۔ ریختہ ایسی کتابوں کی فہرست قارئین کے لئے پیش کرتا ہے۔
میرتقی میر اردو ادب کا وہ روشن ستارہ ہیں ، جن کی روشنی آج تک ادیبوں کے لئے نئے راستے ہموار کر رہی ہے - یہاں چند غزلیں دی جا رہی ہیں، جو مختلف شاعروں نے ان کی مقبول غزلوں کی زمینوں پر کہی اور انھیں خراج عقیدت پیش کی-
مہاتما گاندھی نہ صرف سماجی اور سیاسی حلقوں میں بلکہ شاعروں اور ادیبوں کے درمیان بھی کافی مقبول تھے۔ پیار سے باپو کہے جانے والے اس قومی رہنما کو اردو شاعروں نے بھی اپنی نظموں اور غزلوں میں خاصی جگہ دی ہے۔ گاندھی جی کے اصول و عقاید جیسے حق ، انصاف اور عدم تشدّد وغیرہ کو بنیاد بنا کر اردو میں بھی بے شمار کام ہوئے ہیں۔ یہاں ہم گاندھی جی پر کہی گئی ۲۰ بہترین نظمو ں کا انتخاب پیش کر رہے ہیں۔
हिदायतोंہدایتوں
directions
بوف کور
ناول
مشاہدات
ہوش بلگرامی
خود نوشت
علامتوں کا زوال
انتظار حسین
فکشن تنقید
ادبیوں کے لطیفے
نارنگ ساقی
لطیفے
ادیبوں کے لطیفے
پھر میں ہدایت پاگیا
سید محمد تیجانی سماوی
خودنوشت
مضامین
ہدایت نامۂ غذا
کوی راج ہرنام داس
اہم ہدایتیں
سید ابوالاعلیٰ مودودی
دیگر
ہدایت نامہ شاعر
ساقی فاروقی
یہ صورت گر کچھ خوابوں کے
طاہر مسعود
انٹرویو
انگریزی اصطلاحوں اور محاوروں کی جدید صحافتی فرہنگ
سید راشد اشرف
لغات و فرہنگ
ہمایوں نامہ
گلبدن بیگم
ہندوستانی تاریخ
ہدایت نامہ بندوبست و مالگزاری
سر ولیم میور
قانون / آئین
دیوان گلشن ہدایت
عبد الکریم مسلم
نعت
یہ ناچیز خادم ملک و ملت نواب اسد یار خاں ناظرین کرام کی خدمت میں عرض پرداز ہے کہ اس کم ترین کو کتوں سے ہمیشہ نفرت رہی ہےا ور رہنی بھی چاہئے۔ کیونکہ جب باری تعالیٰ نے ان ناپاک ہستیوں کو نجس العین فرمایا ہے تو انسان ضعیف البنیان کیا ہستی ہے کہ ان احکام کی خلاف ورزی کرے اور جب ہمارے ہادیٔ برحق نے کتوں سے کنارہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے تو اب کس کی مجال ...
چھٹی جماعت کے کمرے سے ملا ہوا سائنس کا کمرہ ہے اور اس کے برابر دو کمرے انسپکٹر صاحب مدارس نے رہنے کے لئے لے رکھے ہیں۔ اس کے بعد سیڑھیاں دے کر عمارت کو نیچا کر دیا ہے۔ اس حصے میں دو کمرے ہیں۔ ایک میں اسپیشل کلاس اور دوسرے میں پنڈت جی بیٹھتے ہیں۔ پنڈت جی کے کمرے کے سامنے کرکٹ کا چھوٹا میدان اور اس میدان سے ملا ہوا، بورڈنگ ہاؤس ہے۔ میرے مدرسے چھوڑنے...
اگر تم میری ہدایتوں پرعمل کروگے توصاحب ہنرمحرر بن جاؤگے۔ وہ اہل قلم جو دیوتاؤں کے بعد پیدا ہوئے آئندہ کی باتیں بتا دیتے تھے۔ گو وہ اب موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے لئے اہرام نہیں بنائے اور نہ اس قابل ہوئے کہ اپنی اولاد کے لئے دولت چھوڑ جاتے۔ لیکن ان کی وارث ان کی تحریریں تھیں جن میں دانائی کی ...
کمان تب تک تنی رہے گیہماری اگلی ہدایتوں تک
بھری بہار میں اتوار کی ایک صبح تھی۔ دریا کے کنارے ایک قطار میں بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بودے مکان جن میں رنگ اور بلندی کے سوا کوئی اور فرق مشکل ہی سے نظر آتا تھا، ان میں سے ایک کی پہلی منزل پر اپنے نجی کمرے میں ایک نوجوان تاجر جارج بنڈمان بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ابھی ابھی اپنے ایک پرانے دوست کے نام، جو اب پردیس میں رہنے لگا تھا، خط لکھ کر ختم کیا تھا ا...
شاید یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس عمارت کے بڑے کمرے میں ہر چیز کی جلالت اور توقیر کا رتبہ طے شدہ معیاروں نے مقرر کر رکھا تھا اور انھیں بدلتی ضرورتو ں کے باعث بار بار نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اس لیے جلدی جلدی دروازے کی دیوار پر لال بتی بھی نہیں جلتی بجھتی تھی۔اب تو ان باتوں کو ایک زمانہ گزر چکا ہے، ان برسوں میں ایسی ہی عمارتیں اسی مقصد کے لیے تھوڑے بہت مقامی فن تعمیر کے فرق کے ساتھ ملک کے کئی بڑے شہروں میں بن گئی ہیں۔ ان نئی عمارتوں میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سبب دورے پر جانے کا موقع بھی مجھے ملتا رہا ہے، جہاں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اندر سے ان عمارتوں کے کمرے، فرش اور غسل خانے سب ایک ہی سے تھے۔ زیادہ غور سے دیکھنے پر انکشاف ہوا کہ ہر عمارت میں پنکھے ایک ہی رفتار سے چلتے تھے، کھڑکیوں کے شیشے ایک ہی جگہ سے ٹوٹے تھے اور روشن دانوں سے گرا برساتی پانی ایک ہی طرح سے دیوار پر گرتا تھا۔
میدان سے ویرانی اور اداسی رخصت ہونے لگی، چار سو اڑتے ہوئے غولِ بیابانی جیسے شاخ پر گم ہوئے خشک پتوں نے پہلے خود آگ کھائی اور پھر خود آگ اورآگ سے راکھ بنے۔ وہ خس و خاشاک جو کبھی سبزۂ نورستہ سے گندم گوں سنہرے سے پیلے خس و خاشاک کی صورت نہ جانے کب سے سویا پڑا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے جاگنے لگا بلکہ خواب گراں سے بیداری کے مرحلے میں داخل ہوا۔ علاقے کی ہاؤہو، ٹریفک کے پرشور اور گاہے گاہے جام ہوجانے والے ہجوم میں کسی کوخبر ہی نہ ہوئی کہ کب اس میدان میں آبادی اور گہماگہمی کا ڈول پڑنے لگا ہے۔ میدان کے عین وسط میں بانسوں اور پھونس سے بنا ہوا ایک چھپر جو طول میں زیادہ اورعرض میں قدرے کم تھا، نمودار ہو گیا ہے اور اس کے تلے کسی عام پھیری والے ترکھان کے ہاتھوں بنی بھدے اور سستے کاٹھ کی کرسیوں کے ساتھ ساتھ تین ٹانگوں پرٹکی ہوئی میزیں لگائی جارہی ہیں، جن کے پٹڑے ذراسی ٹھیس لگنے پر پھیل پڑتے ہیں۔ کیوں؟ کس واسطے؟ کس نے؟ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سوال کرنے اور جواب لینے کی فرصت کسے ہوتی ہے۔ البتہ جب چھپر کے اس جانب سے بریانی، سیخ کباب اور دہکتے ہوئے انگاروں والی لمبی لمبی دیسی انگیٹھیوں پرنیم برشت کم سوختہ چرغوں، تندورسے نکلتی گرم گرم خمیری روٹیوں کی مہک چارسوپھیلی تو چشم فلک توکب سے دیکھتی رہی، پر آدمی کی نظر نے دیکھا! تو اچھا بھئی یہ تو بھرپور ہوٹل کا ڈول پڑ چکا ہے جس کے ایک سرے پر کاؤنٹر سے مشابہ تھڑے پر گدی جمائے رقم کی صندوقچی سامنے دھرے وہی کرخت چہرے کڑے تیوروں والا شخص بیٹھا پہلے سے بھی زیادہ سخت آواز میں مسلسل احکامات جاری کر رہا ہے اور مجرور وہی ’’چھوٹا۔‘‘ کون سا چھوٹا؟ کتنے چھوٹے یافقط ایک چھوٹا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ چھوٹا۔۔۔ ایک چھوٹا یا کئی چھوٹے، اس کے احکامات کی تعمیل اتنی لپک جھپک اور تیزی سے کر رہے ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کتنے چھوٹے یا فقط ایک سنگل واحد چھوٹا یہ خدمات انجام دے رہا ہے اور مطالبہ کرنے والی آوازوں کی ہمراہی میں مالک کی آوازیں بہت۔ ’’اوئے چھوٹے ہاف سیٹ دودھ پتی، آگے والی نمبر چار ٹیبل۔ چھوٹے! اوئے! ایک پیالہ پائے، دونان، بیچ والی دس نمبر ٹیبل۔ چھوٹے، ٹھنڈا پانی تین گلاس تیجی نمبر ٹیبل پچھلے پاسے۔ بِل پھڑ (بل پکڑ)۔‘‘ چھوٹا لپک جھپک آنکھیں مچ مچ کرتی، ناک سڑپتا، میلی بدرنگ جینز، کف کھلی آستینوں والی قمیص میں ادھر سے ادھر جیسے بجلی کا کوندا ہو کہ لپکتا پھرتا۔ ایک ہاتھ میں سلور کا پانی بھراجگ اور سلور کے لمبے لمبے گلاس، دوسرے میں کچھ اور ایک اور آواز، چھوٹے ایک ڈبی 555۔ روٹی 4 سیخ کباب۔ مالک کی گرجتی آواز، چھوٹے چل سٹوڈنٹوں کی ٹیبل جوڑ، چار سٹوڈنٹ آڈر پھڑ۔ باورچیوں کی جانب سے آوازیں، اوئے چھوٹے، چائے کے سیٹ دھو! چھوٹے، پیالے رکابیاں صاف کر۔ چھوٹا، ہر آرڈرکی تعمیل کے ساتھ رقم لالاکر مالک کو پکڑاتا جا رہا ہے۔ رقم، صندوقچی کے سوراخ سے گزرکر اندرپہنچتی جا رہی ہے۔ صندوقچی کا بھار بڑھتا جا رہا ہے اور جیسے جیسے صندوقچی کا بھار بڑھتا جا رہا ہے، ویسے ویسے مالک کے احکامات اور ہدایتوں کی گھن گرج اور عجلت کا تقاضا بھی بڑھ رہا ہے۔ ’’چھوٹے، اوئے چھوٹے چل چھیتی کر۔ ٹیبل نمبر سولہ دہی۔ ٹیبل نمبر تیس ہاف سیٹ۔ لیڈی سٹوڈنٹوں کی ٹیبل دس، کباب سیخ پانچ۔ چل بھئی شاوا، جلدی فٹافٹ۔‘‘ بدحواسی میں بوکھلائے ہوئے چھوٹے کے ہاتھ سے پائے کے شوربے سے بھرا چینی کا پیالہ پھسلا اور چھن سے ٹوٹ گیاہے۔ شوربہ فرش پر بکھر گیا ہے۔
اعلیٰ درجہ کے شاعر جو اخلاق کو نظم کے دل فریب سانچے میں ڈھالتے ہیں اور پیغمبری کاایک فرض ادا کرتے ہیں اور دنیا کے لٹریچر کو اپنی نصیحتوں اور ہدایتوں سے مالامال کرتے ہیں اور سوسائٹی کو حسنِ معاشرت کی تعلیم دیتے ہیں، وہ زندگی میں بھی فائدہ رسانی کرتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ان کا فیض جاری رہتا ہے۔ ان کا نام ابدالآباد تک زندہ ہے اور ان کا کام ہمیشہ قا...
دو نوجوان قبر میں اتر گئے تاکہ جسدِ خاکی کو آرام سے اتارا جائے۔ لوگوں نے قبر کو گھیر رکھا تھا۔ پھر ہدایتوں کی بوچھار ہونے لگی۔’’دیکھئے، داہنے سے اٹھائیے...‘‘۔ ایک آواز آئی۔
روایتوں کی کمی نہیں ہے ہدایتوں کی کمی نہیں ہےقدم قدم پہ کھڑے ہیں رہبر مگر زمانہ بھٹک رہا ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books