aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ناگفتنی"
امی چند کالج چلا گیا تو اس کی بیٹھک مجھے مل گئی اور داؤ جی کے دل میں اس کی محبت پر بھی میں نے قبضہ کر لیا۔ اب مجھے داؤ جی بہت اچھے لگنے لگے تھے لیکن ان کی باتیں جو اس وقت مجھے بری لگتی تھیں، وہ اب بھی بری لگتی ہیں بلکہ اب پہلے سے بھی کسی قدر زیادہ، شاید اس لئے کہ میں نفسیات کا ایک ہونہار طالب علم ہوں اور داؤجی پرانے ملائی مکتب کے پروردہ تھے۔ سب سے بری عادت ان کی اٹھتے بیٹھتے سوال پوچھتے رہنے کی تھی اور دوسری کھیل کود سے منع کرنے کی۔ وہ تو بس یہ چاہتے تھے کہ آدمی پڑھتا رہے پڑھتا رہے اور جب اس مدقوق کی موت کا دن قریب آئے تو کتابوں کے ڈھیر پر جان دے دے۔ صحتِ جسمانی قائم رکھنے کے لئے ان کے پاس بس ایک ہی نسخہ تھا، لمبی سیر اور وہ بھی صبح کی۔ تقریباً سورج نکلنے سے دو گھنٹے پیشتر وہ مجھے بیٹھک میں جگانے آتے اور کندھا ہلا کر کہتے، ’’اٹھو گولو موٹا ہو گیا بیٹا۔‘‘ دنیا جہاں کے والدین صبح جگانے کے لئے کہا کرتے ہیں کہ اٹھو بیٹا صبح ہو گئی یا سورج نکل آیا مگر وہ ’’موٹا ہو گیا‘‘ کہہ کر میری تذلیل کیا کرتے، میں منمناتا تو چمکار کر کہتے، ’’بھدا ہو جائےگا بیٹا تو، گھوڑے پر ضلع کا دورہ کیسا کرےگا!‘‘ اور میں گرم گرم بستر سے ہاتھ جوڑکر کہتا، ’’داؤ جی خدا کے لئے مجھے صبح نہ جگاؤ، چاہے مجھے قتل کر دو، جان سے مار ڈالو۔‘‘یہ فقرہ ان کی سب سے بڑی کمزوری تھی وہ فوراً میرے سر پر لحاف ڈال دیتے اور باہر نکل جاتے۔ بے بے کو ان داؤ جی سے اللہ واسطے کا بیر تھا اور داؤ جی ان سے بہت ڈرتے تھے، وہ سارا دن محلے والیوں کے کپڑے سیا کرتیں اور داؤ جی کو کوسنے دیے جاتیں۔ ان کی اس زبان درازی پر مجھے بڑا غصہ آتا تھا مگر دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہ ہو سکتا تھا۔ کبھی کبھار جب وہ ناگفتنی گالیوں پر اتر آتیں تو داؤ جی میری بیٹھک میں آ جاتے اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر کرسی پر بیٹھ جاتے۔ تھوڑی دیر بعد کہتے، ’’غیبت کرنا بڑا گناہ ہے لیکن میرا خدا مجھے معاف کرے تیری بے بےبھٹیارن ہے اور اس کی سرائے میں، میں، میری قرة العین اور تھوڑا تھوڑا، تو بھی، ہم تینوں بڑے عاجز مسافر ہیں۔‘‘ اور واقعی بے بے بھٹیارن سی تھی۔ ان کا رنگ سخت کالا تھا اور دانت بے حد سفید، ماتھا محراب دار اور آنکھیں چنیاں سی۔ چلتی تو ایسی گربہ پائی کے ساتھ جیسے (خدا مجھے معاف کرے ) کٹنی کنسوئیاں لیتی پھرتی ہے۔
عصمت نے کہا، ’’کیا عیب ہے اس جملے میں؟‘‘میں جواب میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ مجھے عصمت کے چہرے پر وہی سمٹا ہوا حجاب نظر آیا جو عام گھریلو لڑکیوں کے چہرے پر ناگفتنی شے کا نام سن کر نمودار ہوا کرتا ہے۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی اس لئے کہ میں’’ لحاف‘‘ کے تمام جزئیات کے متعلق اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ جب عصمت چلی گئی تو میں نے دل میں کہا، ’’یہ تو کم بخت بالکل عورت نکلی۔‘‘
تھے معزز شخص، لیکن ان کی لائف کیا کہوںگفتنی درج گزٹ باقی جو ہے ناگفتنی
بلقیسؔ اپنی بات تو سب سے الگ رہیناگفتنی سنی ہے کہی ناشنیدنی
ناگفتنی ہے عشق بتاں کا معاملہہر حال میں ہے شکر خدا کچھ نہ پوچھیے
پروفیسر قاضی عبد القدوس غالب کے مختلف مصرعوں کو پھینٹ کر اکثر فرماتے ہیں کہ تنگ دستی نہ ہو تو تندرست آدمی کی تمنا کا دوسرا قدم گرہستی حدود کے باہر پڑتا ہے! یوں تو کوئی ارمان ایسا ہوگا جس کے ہم مرتکب نہ ہوئے ہوں۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ گھر بگڑے۔ حد یہ کہ تندرستی کی آرزو بھی کی ہے۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ ناکردہ گناہوں کی اس ناگفتنی فہرست میں اس سے پہلے مال بردار جہاز کا کپتان بننے کی خواہش کبھی شامل نہ ہوئی تھی۔ اب رہ رہ کر پچھتاوا ہو رہا تھا کہ ہائے! یوں خشکی پر وقت ضائع نہ کیا ہوتا تو کیا کیا مزے کرتے۔ قسمت میں اگر جہاز کا کپتان ہونا نہیں لکھا تو کم از کم کچھوا ہی ہوتے۔ رہ گیا، تھادل میں جو کچھ ذوقِ خواری، ہائے ہائے!’’عجب ہریال عورت ہے!‘‘ ہم نے کہا۔
تھے معزز شخص لیکن ان کی لائف کیا کہوںگفتنی درج گزٹ، باقی جو ہے ناگفتنی
حال دل ناگفتنی ہے ہم جو کہتے بھی تو کیاپھر بھی غم یہ ہے کہ اس نے ہم سے پوچھا ہی نہیں
تھے معزز شحص لیکن ان کی لائف کیا لکھوں گفتنی درج گزٹ، باقی جو ہے ناگفتنی
ہرشخص کا اندازہ اس کے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ سالک صاحب اوائل عمر ہی سے جن لوگوں کے ساتھ رہے وہ قلم کے لیے مایۂ ناز تھے، اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، ممتاز علی۔ جس پایہ کے لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے۔ ہم سفروں میں انھیں مہر جیسا رفیق قلم ملا۔ ہم نشینوں میں چراغ حسن حسرت، مرتضی احمد میکش، احمد شاہ بخاری، محمد دین تاثیر۔ شاگردوں میں احمد ندیم قاسمی اور اولاد میں عبدالسلام خورشید۔ تمام عمر قرطاس و قلم میں کیغ، سالہا سال لکھا اور سالہا سال پڑھا۔ اس اعتبار سے وہ ایک تہائی صدی کے ادب و سیاست کی چلتی پھرتی کہانی تھے۔ ان کی باتوں سے جی اکتاتا ہی نہیں تھا، کیا کیا باتیں ان کے سینہ میں نہیں تھیں؟ کتنی ہی باتیں ان کے قلم سے صفحہ کاغذ پر آگئیں، کتنی ہی لوگوں کے حافظہ میں بے تحریر پڑی ہیں اور کتنی ہی ناگفتنی ہونے کے باعث محفلوں میں اڑتی پھرتی ہیں۔ اکثر گفتنی و نا گفتنی وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔ جس موضوع پر بولتے موتی رولتے۔ ہا! میر درد نے کس وقت کہا تھا۔یارب وہ ہستیاں اب کس دیس بستیاں ہیں؟
قید بیاں میں آئے جو ناگفتنی نہ ہووہ رابطہ کہ قلب کی گہرائیوں سے ہے
گفتنی درج گزٹ باقی جو ہے ناگفتنییہ شاعری بھی دراصل ’’گزٹ والی‘‘ شاعری ہے۔ چکبست اور اقبال کی قومی شاعری اسی سلسلے میں شامل کیجیے۔ اب رہ گیے دوسری قسم کے نمونے یعنی برکھارت اور مناظرۂ رحم و انصاف والی شاعری۔ حالی کے بعد شاعری کی اس نئی روایت میں بھی بڑا اہم اور قابل قدر کام ہوا۔ چکبست، اسماعیل میرٹھی، سرور جہاں آبادی، شوق قدوائی، عظمت اللہ، عبد الرحمن بجنوری سے گزرتا ہوا یہ سلسلہ بھی اقبال تک پہنچتاہے۔ ایک آدھ نمونہ دیکھتے چلیے۔ سرور کہتے ہیں،
وہ دل کا درد وہ ناگفتنی سخن خورشیدؔخدا سے کہہ لیا خلق خدا سے کون کہے
ناگفتنی ہے عشق بتاں کا معاملہہر حال میں ہے شکر خدا کچھ نہ پوچھئے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیںناگفتنی ہے عشق بتاں کا معاملہ
پروفیسر آر۔ ڈی۔ لینگ اپنی مختصر کتاب ’’تجربے کی سیاست‘‘ کے دیباچے میں لکھتا ہے، ’’ہم سب قاتل ہیں، طوائف، ہیں۔ بلا لحاظ کلچر، سماج، کلاس، ملک۔۔۔ خواہ ہم خود کو کتنا ہی نارمل، اخلاقی، بالغ نظر کیوں نہ سمجھتے ہوں ۔ آج انسانیت اپنے ’’روشن امکانات‘‘ سے کٹ چکی ہے۔‘‘ (تجربے کی سیاست صفحہ ۱۱)اس کے باوجود اظہار کی نامعلوم پیہم خواہشیں ہمیں کچھ نہ کچھ کہنے کی ترغیب دیے جا رہی ہیں۔ قاضی سلیم، ندا فاضلی، عمیق حنفی، عادل منصوری، محمدعلوی، احمد ہمیش اور کئی شاعر’’اس ناگفتنی کے دور‘‘ میں تجربے کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ فرانسیسی دانشور کلاڈلیوی اسٹراس (CLAUD LEVI STRAUSS) نے کہا ہے کہ ’’ساری بے معنویت کے باوجود تلاش کی انفراد ی مہم ضروری ہے۔‘‘
مرا یہ حزنیہ اس دور میں ہےسخن تو ہوں مگر ناگفتنی ہوں
ہر روز کر رہے ہیں شرارت نئی نئیوہ لوگ جن سے شرم رسول خدا گئی
اس یاد کا بھنور میرے احساس میں رہااظہار موج موج کی ناگفتنی بھی ہے
یبوست اور اس کے اوجھل سے جھانکتی بھیانکتا کے رنگوں میں لتھڑے ہوئے اس گاؤں میں جس نے ایک روز لہو کا کفن اوڑھنا تھا، گلاب شاہ بھی اپنے طنطنے کے ساتھ موجود تھا۔ ظل سبحانی قسم کی چیز گلاب شاہ جوکبھی مولوی گاٹا کہلاتا تھا اور پکی مسجد کا خادم تھا، اپنی موٹی گردن، گینڈے سے تنومند جسم اور سانپ سی بے قرار آنکھوں کے باعث نہایت ناپسندیدہ شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ وقت کی ایک کروٹ کے نتیجے میں وہ خادم سے ترقی پاکر مسجد کا مالک و مختار بن گیا تھا۔ امامت کے منبر اور پہلے والے نیک دل مولوی صاحب کی پر اسرار موت کے درمیان کوئی تعلق نہ ہو تب بھی بہت سے ناگفتنی راز ایسے تھے جو شکی مزاج لوگوں کی بیٹھکوں میں سرگوشیوں کی صورت زندہ تھے۔گلاب شاہ صفیں چیر کر آگے بڑھنے کا فن جانتا تھا۔ اپنی بادشاہی آباد ہونے سے پہلے بھی وہ مقتدر سرکاری اہلکاروں اور بڑے لوگوں کے درمیان ایک خاص نوع کی اہمیت رکھتا تھا۔ اپنی اسی اہمیت کے باعث وہ سائل اور مسؤل کے درمیان رابطے کا کار آمد وسیلہ بن چکا تھا۔ بھینس چوری سے زنا بالجبر تک سارے بکھیڑے اس کے آگے پانی تھے۔ وہ مناسب سے دام کے عوض اس خوبی سے انہیں نبیڑتا کہ سائل اور مسؤل دونوں مراد پا جاتے تھے۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books