aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "چکاچوند"
’’جب میں مروں تو مجھے گلابی کپڑوں میں دفن کرنا اور بہت سے ولایتی مٹر کے پھول میرے اوپر ڈال دینا۔‘‘ اس نے افسردگی اور جذبہ سے کہا، میرا دل درد سے سمٹ کر ایک زندان معلوم ہونے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آ گیا جب وہ میرے پاس نہ ہوگی اور میں اکیلا ہوں گا۔ یہ خیال ایک تیر کی طرح سے میرے جگر کے پار ہو گیا۔ آم کے درخت میں ایک کویل درد سے یکایک کوکی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک مور کی دردانگیز جھنکار سنائی دی۔’’ایسی باتیں تو منہ سے نہ نکالو۔ نہ تم موت کے لیے ہو نہ موت تمہارے لیے۔۔۔‘‘ ایک غمگین مسکراہٹ اس کے چہرہ پہ پھیل گئی اور میرا دل دنیا کے سب گلابوں اور ولایتی مٹر کے پھولوں کی محبت سے بھر آیا۔ پھر ادا سے وہ کوہنیوں کے بل لیٹ گئی اور میری طر ف دیکھا۔ میری آنکھیں ان حسین آنکھوں کی چشمک سے چکاچوند ہو گئیں۔ اس وقت وہ آنکھیں محبت کے دو سمندروں کی طرح کی تھیں جن کی سطح کی وسعت نگاہ کی زد سے باہر تھی اور ان کی گہرائی آنکھوں کی روشنی سے پوشیدہ۔ ان سمندروں میں دوموجیں بیک وقت بل کھاتی ہوئی اٹھیں، ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور بہتی ہوئی میری روح کی گہرائیوں میں اتر گئیں۔ میں اس لہر کے جذبہ میں غرق ہو گیا۔ وہ مجھے اپنی رو میں بہا لے گئی۔ خوشی سے میری زبان پر مہر لگ گئی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ کچھ کہوں، کچھ کروں، لیکن خوف مجھ پر طاری ہو گیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے اپنی محبت کے اظہار کرنے کا کوئی حق نہیں۔ میں اپنی محبت سے ڈرتا تھا۔ اس ایک لمحہ میں میں نے موت اور زندگی دونوں کا مزہ چکھ لیا۔
ریستوران کی فضا پرسکون اور خاموش تھی۔ بالکونی کے نیچے پلاٹ میں رنگین پھولوں کا جال سا بچھا ہوا تھا۔ ایک طرف سنگین بنچ کے اوپر ناشپاتی کے درخت پر جابجا سپید پھول چمک رہے تھے۔ ایک کمسن بچہ بڑی خاموشی اور انہماک سے گھاس پر گرے پڑے پھولوں کو اٹھا اٹھا کر بنچ پر جمع کر رہا تھا۔ پانچ سال پہلے جب میں اپنی رجمنٹ کے ساتھ قاہرہ جا رہا تھا، تو پال نے آخری رات اسی جگہ ڈنر دیا تھا۔ اس شام گوتما تتلی کے پروں ایسی رنگین ساری میں ملبوس تھی۔ اس کے نرم سیاہ بال بڑی خوبصورتی سے دولٹوں میں گندھے ہوئے تھے، اور بائیں کان کے اوپر چنبیلی کی تین کلیاں مسکرا رہی تھیں۔ ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعیں اس کے صندلیں جسم میں چکاچوند سی پیدا کر رہی تھیں۔ وہ ایک ایسا سنہری خواب معلوم ہو رہی تھی جو شروع رات کی ادھ پکی نیند میں دیکھا گیا ہو۔ پال بڑی مشکل سے نیلی سرج کے سوٹ میں ٹھسا ہوا تھا اور کئی بار کرسی پر پہلو بدل چکا تھا۔ وہ کولڈبیف کے ساتھ گرین کمل کے ہلکے گھونٹ چڑھا رہا تھا اور سگریٹ کے ساتھ سگریٹ سلگا رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ڈنر اس نے اپنے اعزاز میں دیا ہو۔ ہمارے سروں پر ناشپاتی کی نازک ٹہنیاں اسی طرح سپید پھولوں سے لدی ہوئی تھیں۔
وہ بڑی پتلی چھمک سی تھی۔۔۔ شاہ بھی تھا، اس کے دوست بھی تھے۔ رشتہ داروں میں سے کچھ مرد بھی تھے۔ اس چھمک چھبیلی عورت نے اس کونے کی طرف دیکھتے ہوئے بھی ایک بار سلام کیا اور پھر دوسری طرف گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ٹھمکتی ہوئی بیٹھ گئی۔ بیٹھتے وقت اس کی کانچ کی چوڑیاں پھر کھنک اٹھیں۔ شاہنی نے ایک بار پھر اس کے بازوؤں کی طرف دیکھا۔ اس کی ہری کانچ کی چوڑیوں کی طرف بھی اور پھر وہ سہج سبھاؤ سے اپنے بازوؤں میں پڑے سونے کے چورے کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ کمرے میں ایک چکاچوند سی چھا گئی۔ ہر ایک کی نگاہیں صرف ایک طرف کو ہی جھک گئیں۔ شاہنی کی آنکھیں بھی، لیکن صرف اپنی آنکھوں کو چھوڑ کر باقی سب کی آنکھوں پر اسے غصہ سا آ گیا۔ وہ ایک بار پھر کہنا چاہتی تھی، ’’نی بدشگنی کیوں کرتی ہو؟ گھوڑی کے گیت گاؤنا۔‘‘ لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں رک گئی۔ کمرے میں ایک چپ سی چھا گئی۔ وہ کمرے کے بیچوبیچ پڑی ڈھولکی کی طرف دیکھنے لگی اور اس کا دل کیا کہ وہ بڑے زور سے ڈھولک بجائے۔
وہ تو ایک نہ بول سکنے والی بھیڑ تھی جسے زبردستی کھینچا جارہاہو۔ اس میں ترغیب تھی نہ دعوت، کوئی خیال نہ چکاچوند، ایک مری ہوئی خاموش، سرد اور جھلسی ہوئی نعش! وہ اپنے تصور سے کانپ گئی اور ساگر کے بازو کو پکڑ کر یوں رک گئی، جیسے چلتی ہوئی مشین میں سے کسی نے قوت کا تار کھینچ لیا ہو۔ اور ساگر نے اپنے گردوپیش اندھیرے کو گھورا، اور اس کے برف کی مانند سر، ماتھے اور گال پر ہاتھ پھیر کر بولا، ’’کیا ہے کملیش!‘‘کملیش کاجی چاہا، روکر اس سے لپٹ جائے۔ اور چیخ چیخ کر کہے۔۔۔ مجھے واپس لے چلو۔ میں واپس جانا چاہتی ہوں۔ آگے بڑھنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ اس اندھیرے کی ہوا کی تیز سانسوں میں مجھے اپنے باپ کے کھانسنے کی آوازیں اور ماں کی پکاریں سنائی دیتی ہیں۔۔۔ لیکن وہ ایک بے زبان کی مانند سر اٹھاکر کھڑی ہوگئی۔۔۔ خاموش اور بجلی کے کھمبے کی طرح ساکن اور منجمد! ساگر نے اسے کاندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیااور وہ سچ مچ روپڑی۔
گوری دادی سفید جھک چاندنی بچھے تخت پر سفید بے داغ کپڑوں میں ایک سنگ مرمر کا مقبرہ معلوم ہوتی تھیں۔ سفید ڈھیروں بال، بے خون کی سفید دھوئی ہوئی ململ جیسی جلد، ہلکی کرنجی آنکھیں جن پر سفیدی رینگ آئی تھی، پہلی نظر میں سفید لگتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر آنکھیں چکاچوند ہو جاتی تھیں۔ جیسے بسی ہوئی چاندنی کا غبار ان کے گرد معلق ہو۔نہ جانے کب سے جئے جارہی تھیں۔ لوگ ان کی عمر سو سے اوپر بتاتے تھے۔ کھلی گم سم بے نور آنکھوں سے وہ اتنے سال کیا دیکھتی رہی تھیں۔ کیا سوچتی رہی تھیں کیسے جیتی رہی تھیں۔ بارہ تیرا برس کی عمر میں وہ میری اماں کے چچا دادا سے بیاہی تو گئی تھیں مگر انہوں نے دلہن کا گھونگٹ بھی نہ اٹھایا۔ کنوارپن کی ایک صدی انہوں نے انہی کھنڈروں میں بتائی تھیں۔ جتنی گوری بی سفید تھیں اتنے ہی ان کے دولہا سیاہ بھٹ تھے۔ اتنے کالے کہ ان کے آگے چراغ بجھے، گوری بی بجھ کر بھی دھواں دیتی رہیں۔
اس پھلواری کے سرے پر لکڑی کا ایک بنچ رکھا تھا۔ اس پر بیٹھے تو نیچے وادی کاحسین مگر اداس اداس منظر دکھائی دیتا۔ جتنی دیر سورج غائب رہتا۔ ہلکی ہلکی نیلی دھند مکڑی کے جالے کی طرح اس منظر پر چھائی رہتی۔ اور ایسا نظر آتا جیسے پانی میں عکس دیکھ رہے ہوں جب سورج نکلتا۔ تو دھندایکا ایکی سنہری ہوکر اس مرقع کو اور بھی حسین بنادیتی۔ مگر چند ہی لمحوں کے بعد آنکھوں میں چکاچوند ہونےلگتی۔ اور دیکھنے والاجلد ہی اپنی نظریں پھیر لیتا۔اگست کی ایک صبح کو ابھی آفتاب نے مشرقی سلسلہ کوہ کی دوپہاڑیوں کے بیچ ے سر نکالا ہی تھا کہ ایک چھوٹا سالڑکا ایک گھر میں سے نکلا۔ اس کی عمر مشکل سےآٹھ نو برس کی ہوگی۔ اس نےسرخ اون کا پل اوور اورنیکر پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں بادامی رنگ کا فل بوٹ تھا جس کے کنارے مینہ میں بھیگ بیگ کے سیاہ پڑ گئے تھے۔ لکڑی کے برآمدے سےاترتے ہی لڑکے کی نظر بے اختیار ساتھ والے گھر کی طرف اٹھ گئی۔ مگر اس کا دروازہابھی بند تھا۔ لڑکے کی نظریں اس کی طرف سے اس طرح مایوس پلٹیں۔ گویا وہ کوئی مٹھائی یا کھلونوں کی دکان ہو۔ جسے دکان دار اپنی سستی کی وجہ سے وقت پرنہ کھولتا ہو۔ اس کے بعد اس کی نظر سامنے ڈیلیا کے پودے پر پڑی۔ جس میں ایک بڑا ساسرخ پھول صبح کی سنہری دھوپ میں بڑی تمکنت سےجھم جھما رہاتھا۔ اس پھول نے لڑکے کے دل کو لبھالیا۔ اور وہ لپک کر اس کی طرف گیا۔ وہ کئی لمحوں تک حیرت سے اس کی طرف تکتا رہا۔ اوس کی ننھی ننھی بوندیں اس کی پنکھڑیوں پر لرز رہی تھیں اور ان میں پھول کاعنابی رنگ جھلکتا ہوابہت بھلا لگتا تھا۔ لڑکے نے ایک بار پھر ساتھ والے گھر پر نظر ڈالی اور پھر بڑی احتیاط سے پھول کو توڑ لیا۔
گورکی کا کردار فی الحقیقت بہت حیرت افزا ہے، غریب گھرانے میں پیدا ہو کر وہ صرف تیس سال کی عمر میں روسی ادب پر چھا گیا۔ طبقہ ادنیٰ کا شاعر بیسویں صدی کا بائرن میکسم گورکی زندگی کی تاریک ترین گہرائیوں کے بطن سے، جو جرائم مصائب اور بدیوں کا مسکن ہے، پیدا ہوتا ہے۔ اس نے فقیروں کی طرح ہاتھ پھیلا پھیلا کر روٹی کے سوکھے ٹکڑے کے لئےالتجا نہ کی اور نہ جوہری کی طرح اپنے بیش قیمت جواہرات کی نمائش سے لوگوں کی آنکھوں میں چکاچوند ہی پیدا کرنا چاہی۔ نزہنی نوو گوروکا یہ معمولی باشندہ اپنے حریت پسند افکار سے روسی ادب کی اندھی شمع کو تابانی بخشنے کا آرزو مند تھا۔ مردہ زرد اور بے جان ڈھانچوں میں حیاتِ نو کی تڑپ پیدا کرنا چاہتا تھا۔ میکسم گورکی کا اصلی نام الیکسی میکس مووخ پیشکوف ہے۔ اس کا باپ میکسم پیشکوف ایک معمولی دکاندار تھا جو بعد ازاں اپنی علو ہمتی اور محنت کشی سے استرا خان میں جہاز کا ایجنٹ بن گیا۔ اس نے نزہنی نوو گورو کے ایک رنگ ساز وسیلی کیشرن کی لڑکی سے شادی کی۔ جس کے بطن سے میکسم گورکی ۱۴ مارچ ۱۸۶۹ء کو پیدا ہوا۔ پیدائش کے فوراً بعد ہی باپ اپنے بچے کو استرا خاں لے گیا۔ یہاں گورکی نے ابھی اپنی زندگی کی پانچ بہاریں دیکھی تھیں کہ باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ اب گورکی کی ماں اسے پھر سے اس کے دادا کے گھر لے آئی۔
پھر وہ جمیلہ کے یہاں جائے گی۔ اس کے باہر نکلتے ہی سارے دیکھنے والے حیران رہ جائیں گے۔ راستے میں اسے طاہر، ایوب اور دیپ چند ملیں گے۔ ان کی یہ ہمت تو نہ ہوگی کہ اس سے کچھ بولیں، مگر وہ ہمیشہ سے زیادہ تیز نظروں سے اس کی طرف گھورنے لگیں گے، آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف اشارے کریں گے، اور ان میں سے ہر ایک اپنے کوٹ کا کالر کھینچ کھینچ کر اور خواہ مخواہ انگریزی لفظ بول بول کر یہ دکھانے کی کوشش کرے گا کہ وہ دوسروں سے زیادہ فیشن ایبل اور پڑھا لکھا ہے۔ مگر وہ ان کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھے گی، اس کی رفتار کی ہمواری میں کسی قسم کا فرق نہ پڑے گا اور وہ بڑی متانت اور وقار کے ساتھ گزری چلی جائے گی۔ تاہم اس کا دل بلیوں اچھل رہا ہوگا، اور اس کی آنکھوں کے پپوٹے پھڑپھڑانے لگیں گے۔ وہ بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ کو روک سکے گی۔ سقے کی شبراتن بھی اس وقت اپنا ٹاٹ کا پردہ اٹھائے جھانک رہی ہوگی۔ وہ بھی اسے دیکھ کر بڑی متعجب ہوگی۔ وہ آہستہ سے پکارے گی، ’’ڈولی!‘‘ اور ہاتھ کے اشار ے سے اسے بلائے گی۔ مگر ڈولی اس کی طرف دیکھ کر ذرا سامسکرادے گی، اور آگے بڑھتی چلی جائے گی۔ اور جمیلہ تو بالکل مبہوت رہ جائے گی، وہ ڈولی کی طرف پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھے گی، اور جمیلہ تو بالکل مبہوت رہ جائے گی، وہ ڈولی کی طرف پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھے گی، اور اس کا نچلا ہونٹ لٹکا رہ جائے گا۔ وہ اپنے ڈوپٹے کو خوب پھیلاکر اچھی طرح نیچے کھینچ لے گی جیسے اپنے تنگ پائنچوں کے پیجامے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہو۔ اس کی آنکھوں میں چکاچوند پیدا ہوجائے گی، اور وہ مارے رشک کے تھوڑی دیر تک کچھ نہ بول سکے گی۔ اس کی اماں بھی مسکرا مسکراکراس کی طرف دیکھیں گی، اور فقرہ چست کرنے کی فکر میں کہیں گی، ’’افوہ، آج تو بڑے ٹھاٹھ سے ہو، ڈولی!‘‘ پھر جمیلہ کی بھی زبان کھلے گی، ’’ہاں، ڈولی، آج تو بہت ٹھاٹھ میں ہو!‘‘ وہ اس دن جمیلہ کے ساتھ ساتھ نہ پھرے گی۔ اگر کہیں باورچی خانے وغیرہ میں اس کے فراک پر دھبہ لگ گیا تو؟ وہ بس ایک جگہ جاکر پلنگ پر بیٹھ جائے گی اور تھوڑی ہی دیر میں چلی آئے گی یہ کہہ کر، ’’اچھا، اب تم کام کروگی۔ میں چلوں۔‘‘ وہ جمیلہ کو بتائے گی، ’’اسے بو (Bow) کہتے ہیں۔‘‘ وہ بہت سے نئے فیشنوں کا ذکر کرے گی، اور کئی انگریزی لفظ بولے گی جنہیں سن سن کر جمیلہ بہت مرعوب ہوگی، اور شرم کے مارے ان کا مطلب بھی نہ پوچھے گی، بلکہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرے گی کہ ہاں، وہ سب سمجھ رہی ہے۔۔۔ بالکل جاہل ہے جمیلہ بھی۔ پاؤڈر کو پوڈر کہتی ہے بھلا! اردو تک تو آتی نہیں اسے۔ اور یہ لوگ بنتے ہیں بہت وہ کہ ہم بہت بڑے زمیندار ہیں۔ کپڑے تو ذرا صاف نہیں رکھ سکتی۔ بس صبح پہنے اور شام کو میلے۔ اس کے کپڑے کتنے گندے رہتے ہیں، اور ان میں سے پسینے کی بو آتی رہتی ہے۔ بالوں کو تو بالکل جھاڑ رکھتی ہے۔ کبھی یہ بھی تو نہیں کرتی کہ ذرا بیٹھ کر ان میں کنگھی ہی کرلے۔۔۔ شاید عید کے دن کچھ اچھے کپڑے پہنتی ہو تو پہنتی ہو۔ اب کی عید کو اس کا جی چاہا تھا کہ ذرا جاکر دیکھے کہ جمیلہ نے کیسے کپڑے پہنے ہیں، مگر وہ اس خیال سے رک گئی کہ کہیں اسے ندیدہ نہ سمجھا جائے۔۔۔ اس کے یہاں جمیلہ کے گھر سے سویاں آئی تھیں، اور اگلے دن جب وہ گئی تھی تو جمیلہ نے کہا تھا، ’’تم کل نہ آئیں، ہم تو تمہارا انتظار کرتے رہے۔ آتیں تو ہم تمہاری دعوت کرتے۔‘‘ جمیلہ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ایسے کسی کے گھر بے بلائے نہیں جایا کرتے۔۔۔ وہ اب کے کرسمس پر ضرور جمیلہ کی دعوت کرے گی، اور انگریزی میں رقعہ لکھے گی جسے ترجمے کی کتاب میں سے نقل کیا جاسکتا ہے۔ رقعہ دیکھ کر جمیلہ کچھ نہ سمجھ سکے گی اور پوچھے گی، ’’کیا ہے یہ؟‘‘ تب وہ اسے مطلب سمجھائے گی۔ مگر جمیلہ کہیں باہر تو نکلتی نہیں۔۔۔ تو کیا ہے؟ وہ خود جمیلہ کے ابا سے کہے گی کہ وہ اسے جانے دیں۔ اس کے کہنے سے وہ اجازت دیدیں گے۔ پھر جمیلہ آئے گی رات کو برقعہ میں لپٹی لپٹائی، سمٹتی ہوئی۔ وہ اسے کرسی پر بٹھائے گی۔ جمیلہ کو میز پر بیٹھ کر کھانا عجب معلوم ہوگا اور وہ کچھ سٹ پٹاسی جائے گی۔ جب جمیلہ پلاؤ کو ہاتھ سے کھانا شروع کرے گی تو وہ جلدی سے اس کی طرف چمچہ بڑھائے گی، ’’لو، لو، چمچے سے کھاؤ۔‘‘ جمیلہ بڑی شرمندہ ہوگی، اور ادھر ادھر دیکھنے لگے گی۔ وہ جمیلہ کو فلموں کے قصے، اسکول کے کھیلوں کاحال اور میم صاحب کی باتیں سنائے گی جو اسے پریوں کے ملک کی داستانیں معلوم ہوں گی جہاں کی سیر کا وہ خیال تک نہیں کرسکتی۔ خصوصاً یہ سن کر اسے بڑی حیرت ہوگی کہ فلم دکھانے سے پہلے سنیما میں اندھیرا کردیا جاتا ہے۔۔۔ میز پر کیک دیکھ کر جمیلہ دل میں تعجب کر رہی ہوگی کہ یہ کیا چیز ہے؟ آخر وہ خود ہی جمیلہ کی طرف کیک بڑھاتے ہوئے کہے گی، ’’لو، کیک لو۔۔۔ یہ کیک ہے۔ انگریزی ہوتا ہے یہ۔ اسے انڈوں سے بناتے ہیں۔‘‘ وہ یہ بھی پوچھ لے گی، ’’تم نے چاکلیٹ کھائی ہے، جمیلہ؟ انگریزی مٹھائی ہوتی ہے وہ۔۔۔ اتی بڑی بڑی تخیارں سی ہوتی ہیں۔ بڑی مزیدار ہوتی ہے۔ ہمیں تو میم صاحب بانٹا کرتی ہیں۔‘‘ وہ اسے یہ بھی سنائے گی کہ ریل میں لڑکیاں کتنا ہنستی ہیں، گاتی ہیں، مذاق کرتی ہیں، اور کیسا کیسا لطف رہتا ہے۔ جمیلہ للچا للچا کر رہ جائے گی، اور کچھ کھسیانی سی ہنسی ہنسنے لگے گی۔۔۔ وہ جمیلہ کو یہ بات بتائے یا نہ بتائے کہ اسٹیشن پر ایک لڑکا۔۔۔ایک مٹھی ریت آکر اس کے چہرے پر اس بری طرح گرا کہ اس کی آنکھیں اور منہ کرکرانے لگے۔ ہوا بہت تیز ہوگئی تھی، اور درخت دیوانہ وار ہل رہے تھے۔ آسمان گرد سے بالکل اَٹ گیا تھا، اور خالی کھیتوں میں دور دور تک بگولوں نے اٹھنے اور پھر گرنے کا سلسلہ باندھ رکھا تھا گویا انہوں نے ایک دوسرے سے شرط بد رکھی تھی۔ برمے کی طرح چکر بناتے ہوئے اوپر چڑھنے کے باوجود ان کے ناچ کو کسی قدر دلچسپی سے دیکھا جاسکتا تھا، مگر نیچے گرنے میں ان کی سستی، ٹھیراؤ، نیم رضامندی اور ہچکچاہٹ ناقابل برداشت تھی۔ بعضی دفعہ تو وہ ایسے معلق ہوجاتے تھے گویا انہوں نے بالکل ہمت ہاردی ہے اور اب بالکل آگے نہ بڑھیں گے۔ ان کی کاہلی دیکھ دیکھ کر ڈولی اپنے آپ سے تنگ ہوئی جارہی تھی، اور اس کا جی چاہ رہا تھا کہ شیشے پر مکا مارے یا کوئی ایسی ہی وحشیانہ حرکت کرے جس سے کم سے کم یہ تو معلوم ہو کہ اس کے اندر زندگی ہے۔ کھیت بالکل صاف پڑے تھے، صرف کہیں کہیں کھونٹیاں دکھائی دیتی تھیں۔ بعض جگہ خالی کھیتوں کے پار تھوڑی سی گرد آلود ہریالی بھی زمین کے قریب قریب بچھی ہوئی نظر آتی تھی، خشک اور تر کا یہ میل گنجی چاند کی طرح ایسا گھناؤنا تھا کہ ڈولی کو کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کھیت اس کے پیٹ میں سے اٹھ کر حلق میں اڑ گئے ہیں اور اسے قے سی آرہی ہے۔ سڑک کے درخت اس کی بائیں آنکھ کا نشانہ باندھ کر تیر کی طرح اڑتے ہوئے آتے تھے جیسے اس کے دماغ کو توڑ کر پار ہوجائیں گے، مگر جب وہ قریب پہنچتے تھے تو جلدی سے بچ کر نکل جاتے تھے۔ ڈولی اس پر بالکل تیار تھی کہ وہ اس کا سر پھوڑدیں، مگر اس کے لیے یہ پرفریب مذاق بہت تکلیف دہ تھا۔ اس کاسر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ اور آنکھوں میں پانی بھر بھر آتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے ڈلے جل رہے تھے، اور پلک جھپکانے سے بجائے تسکین کے الٹی چبھن ہوتی تھی۔ پیچھے بیٹھنے والے چیخ چیخ کر بے معنی بحثیں کر رہے تھے، اور اتنے لوگ ایک ساتھ مل کر بول رہے تھے کہ لاری مینارِ بابل بن گئی تھی۔ ایک آدمی اپنی آواز دوسرے سے بلند کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ’’ارے جناح، جناح۔۔۔ نے تو وہ کیا جو۔۔۔‘‘ چند آدمی ’’کسان۔۔۔ کسان۔۔۔‘‘ کہہ کر اپنی بات شروع کرنے کا موقع ڈھونڈ رہے تھے، مگر دوسرے آدمی ان کی بات کاٹ کر خود بھی ’’کسان۔۔۔ کسان‘‘ کہنا شروع کر دیتے تھے۔ ڈولی ہزار کوشش کر رہی تھی کہ اس طرف سے کان بند کرلے، مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی لفظ ضرور آکر اس کے مغز میں ڈھیلے کی طرح لگتا تھا۔ انجن نے الگ غوں غوں، غوں غوں مچا رکھی تھی جس کی دھن پر چکر کھاتے کھاتے اس کا سر بالکل مفلوج ہوگیا تھا اور گرا پڑ رہا تھا۔۔۔ اس سے پلک تو نہ جھپکائی جاتی تھی، مگر اس کے پپوٹے اب ڈلوں کے کانٹوں کے عادی ہوچکے تھے۔ اس نے ہرچہ باد اباد کہہ کر اپنی آنکھوں کو نیم باز چھوڑ دیا، اور بالکل بے حرکت ہوگئی۔ آنکھوں کا کھلا ہوا حصہ پانی سے ڈھک گیا جس کی چپک نے پلکوں کو نیچے کھینچ لیا اور اس کی آنکھیں آخر بند ہوگئیں۔۔۔ نیند میں ہونے کے باوجود وہ انجن کی بھن بھناہٹ صاف سن رہی تھی، مگر وہ اس کے سونے میں مخل ہونے کے بجائے اسے لوری دے رہی تھی اور دوسری مداخلتوں سے بچارہی تھی۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ بہت تیزی سے آگے بڑھتی چلی جارہی ہے مگر اس سے زیادہ اسے زمان و مکان کا کوئی شعور نہ تھا۔ وہ اپنا جسم تک کھو بیٹھی تھی۔ وہ کسی لطیف شے میں بھی تبدیل نہ ہوئی تھی، بلکہ محض ایک شناخت، صرف ایک خیال، ’’میں‘‘ باقی رہ گئی تھی۔ اس کے چاروں طرف ایک بھوری تاریکی تھی جس میں کبھی کبھی پھیکی سی سفیدی کے دھبے دکھائی دے جاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہہ سکتی تھی کہ وہ انجن کی بھن بھناہٹ کے اندر سفر کر رہی ہے۔ صرف ایک دفعہ اسے سر کے بال اور پیشانی کا تھوڑا سا حصہ نظر آیا تھا جسے اس نے پہچان لیا تھا کہ آئرین کا ہے، مگر وہ ایک جھلک کے بعد ہی غائب ہوگیا تھا، اور اندھیرے کی روانی پھر اسی طرح جاری ہوگئی تھی۔
وہ اندلس کے ان اجڑتے ہوئے قصبوں سے آئے تھے جہاں تمام تر قابل کاشت اراضی کسی ڈیوک یا ڈچس کی ذاتی ملکیت ہوتی ہے۔ ان شخصی ریاستوں میں گناہ بھی وہی کرتے ہیں اور ان کا ثواب بھی لیتے ہیں۔ دہقان صرف زمین پر مشقت کرنے کا گناہ کرتے ہیں اور ظاہر ہے ایسے گناہ کا ثواب نہیں ہوتا۔ چنانچہ موسم گرما میں وہ ایک ٹڈی دل کی صورت اس شہر سمندر پر یلغار کر دیتے ہیں اور غیرملکی سیاحوں کے بوٹ پالش کر کے، انہیں گتاروں پر اندلسی لوک گیت سنا کر، روٹی اور پیاز کا بندوبست کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ آج کی شب اسی بس میں گزار کر وہ اگلی صبح علی کانت کے شفاف شہر میں مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگیں گے۔اس نے اپنے سفری تھیلے کو ایک مردہ کتے کی طرح بس کے دروازے تک گھسیٹا اور پھر جیسے ایک نقلی عضو کو جسم پر باندھتے ہیں اسے کندھوں پر سڑیپ سے جکڑ کر اڈے سے باہر آگیا۔ علی کانت کا ہالیڈے ریسارٹ رات کے اس پہر بھی زندہ تھا۔ ساحلی سڑک کے دونوں طرف پام کے درختوں کا ایک سلسلہ تھا جن کے درمیان میں کسی نو دو لتیے کی کوٹھی کے رنگ برنگے چپس کے فرشوں کی مانند لہریے سے بنے ہوئے تھے۔ ان پر روشنیوں کا چکاچوند عکس تھا۔ مُورش حصار کے دامن میں لوگ ابھی تک سفید سوٹوں اور بھڑ کیلے گاؤنوں میں ملبوس شراب پی رہے تھے۔ ریستورانوں سے باہر سفید آہنی جنگلوں پر مکھیوں کی طرح چمٹے اندلسی اور قشتالوی دہقان تھے۔ پچکے ہوئے پیٹ اور غربتی رنگ کے چہرے شراب نوشوں پر لالچی نظریں بچھائے ان کے لباس اور سامنے رکھے مشروب کے بارے میں بھنبھناتے ہوئے سرگوشیاں کر رہے تھے۔
اور اس لمحہ مصر کے لوگوں نے روشنی سے چکاچوند میں چندھیائی ہوئی آنکھیں مل مل کر دیکھا تو وہاں نہ یوسف تھا اور نہ زلیخا تھی، بس ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔
میں نے دروازہ کھولا۔ اندر کے ٹھنڈے اندھیرے کے بعد، باہر کی چکاچوند اور تپش پر میں حیران رہ گیا۔ دروازہ جس کا رنگ سلیٹی اور جالی مٹیالی تھی، اسپرنگوں کی ہلکی سی آواز سے بند ہو گیا۔ اس بند دروازے کے اندر ٹنکچر آیوڈین اور اسپرٹ کی بو تھی اور چمڑے منڈھے لمبے پنجوں اور پالش اتری کرسیوں پر لوگ بیٹھے اخبار اور رسالوں کے ورق بےدلی سے الٹتے تھے۔ مرد نوائے وقت، پاکستان ٹائمز اور کمرے سے باہر چبوترے پر میں کھڑا تھا۔ میں ابھی چند لمحے پہلے اندر تھا اور اب باہر۔ اس چبوترے سے آگے، جہاں میں اس وقت کھڑا تھا ایک چھوٹا سا لان تھا اور اس کے گرداگرد کھٹے کی گھنٹی باڑ۔ یہاں سے سامنے کی صرف ایک آدھ کیاری نظر آ رہی تھی۔ جس میں بے حد سرخ، لہو ایسے گلاب کھلے تھے اور چھوٹے چھوٹے کٹورے کی مانند کچھ زرد پھول جن کا نام میں نہیں جانتا اور اس لان کے ساتھ ساتھ کچا راستہ جو لکڑی کے سفید پھاٹک پر ختم ہو جاتا تھا۔ میں چبوترے کی پانچ سیڑھیاں اتر کر کھٹے کے باڑ کے ساتھ ساتھ چلتا گیٹ تک آیا۔ اسے کھولا۔ اس کی چولیں بھی ہولے سے چرچرائیں۔ پھر اس گیٹ کے باہر ایک گنجان سڑک پھیلی تھی۔باہر نکلتے ہی میں نے پل بھر کو آنکھیں بند کیں۔ صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ میں نے کیا دیکھا ۔ سرخ اندھیرا ہولے سے سبز اندھیرا بنا۔ پھر زرد زرد روشنی کے دھبے کبھی سیاہی مائل نیلے کبھی سفید ہونے لگے۔ کچھ چیزوں کے خطوط جلتے بجھتے رہے۔ ان جلتے بجھتے اندھیروں کے ساتھ پھر میرے گلے میں وہ پھندا آن پڑا اور ہولے ہولے میرے جبڑے سست پڑنے لگے۔ منہ خود ہی کھل گیا۔ میں نے دانتوں کو باہم بھینچنے کی کوشش کی اور میری مٹھیاں اس کوشش میں دکھنے لگیں۔ مگر اوپر تلے کے دانت ایک دوسرے سے جدا ہی رہے۔ آخر میں نے جیب سے وہ شیشی نکالی اور ایک گولی منہ میں رکھی۔ مجھے معلوم تھا کہ میرے اندر ایک ہزار پایہ پل رہا ہے۔ لمبے لمبے پنجوں والا کیڑا جو رفتہ رفتہ اپنی بےشمار شاخیں پھیلا رہا ہے۔ میری رگوں میں گاڑ رھا ہے۔ مگر معلوم ہونے کے باوجود مجھے یقین نہیں تھا۔ ابھی اس کمرے کے اندر ڈاکٹر نے مجھے یہی بتایا تھا۔ مگر میں سوچتا ہوں میرے اندر کیڑا کیوں کر پل سکتا ہے۔ یہ مجھے قطعی ناممکن لگتا ہے۔
زندگی میں پہلی بار باہر نکلنا ہوا تھا…. یہ دنیا ہی اور تھی، ہر وقت چکاچوند، گلیمر۔ مہینہ تو پتہ ہی نہیں چلا کیسے گزرا۔ جس دن انہوں نے واپس جانا تھا۔ بیٹے نے کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے پوچھا…. ”ابو اب آپ کا اسٹی میٹ کیا ہے۔“اس نے سنجیدگی سے کہا…. ”دس کروڑ“
تیزی سے آتے جاتے بیرے باہر لان میں بیٹھے مہمانوں کی سروس کر رہے تھے۔ لان میں کرسیاں رسمی پھولوں کی طرح یہاں سے وہاں تک بکھری اب مدھم نظر آنے لگی تھیں۔ ان کرسیوں پر بیٹھے بہت سے لوگوں کو وہ پہچانتا تھا۔ بہت سے لوگ اس کو پہچانتے تھے۔ کئی ایک سے اس کی سلام دعا تھی۔وہ یہاں کا اتنا پرانا ممبر تھا کہ کسی کو بھی اس کے کاؤنٹر سائین پر بڑی سہولت سے نئے ممبر ٹرائل پرلے لیا جاتا تھا۔ اندر کی تیز روشنیوں کی چکاچوند میں باہر کے چمکدار ہلکے اندھیرے کی طرف کسی کی توجہ بھی نہیں جاتی۔
فرانسس کرک نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انسانی دماغ کے اندر ایک خاص ’’علاقہ‘‘ بھی ہے جہاں خودمختاری کی نمود ہوتی ہے۔ ایک ایسا مقام جہاں انسان اچانک نتائج اخذ کرتا اور اپنے طورپر فیصلے کرتا ہے۔ یہ عمل علت ومعلول کے تابع ہے۔ لہٰذا جبریت (Determinism) کی صورت میں نہیں ہے۔ کیا یہی وہ مقام نہیں جہاں انسان کے ہاں تخلیقی زقند نمودار ہوتی ہے؟ یوں نظرآتا ہے جیسے انسانی دماغ میں یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو معرفت کے ایک کوندے سے اچانک تعارف حاصل ہوتا ہے۔انسانی دماغ اربوں انتہائی پیچیدہ، ہمہ وقت تبدیل ہوتے اورایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے نیورونز (Neurons) کی آماجگاہ ہے۔ یہ ایک گورکھ دھندا ضرور ہے مگریہ دریدا کے گورکھ دھندے یعنی Labyrinth ایسا نہیں ہے بلکہ ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جو نراج (Chaos) کو Orderسے آشنا کرتا ہے۔ تاہم اس آرڈر کی نمود جبھی ممکن ہے کہ نیورونز کے گورکھ دھندے کی رفتار کم ہوجائے۔ اس خاص کام کے لیے دماغ متخیلہ کو بروئے کار لاتا ہے اور فکشن تخلیق کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیقی زقند کے لیے متخیلہ اور فکشن کی دھند کا ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے دماغ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ خود فریبی یا Self–Deception میں مبتلا ہے۔ صوفیا اسے ’’مکاری‘‘ سے موسوم کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تخلیق کاری کے لیے ایک لازمی شرط ہے کیونکہ ’’آرڈر‘‘ اسی وقت دکھائی دیتا ہے جب متخیلہ نیورونز پر پردہ تان کر ان کی چکاچوند کو کم کردیتا ہے۔
مسکراہٹ بدستور میرے لبوں پر تھی۔میں نے پلکیں گراکر چکاچوند آنکھوں میں اندھیرا لانا چاہا مگر میری آنکھوں میں سورج اتر گئے تھے۔ میں نے پھر پلکیں اٹھالیں۔
’’آج کیوں وہ بے جان چیزوں کو بھی ایسی نظروں سے دیکھتی ہے جیسے ان پر اپنے اچھے ہونے کا احساس طاری کر دینا چاہتی ہے۔ اس کے جسم کا ذرہ ذرہ کیوں ’’ماں‘‘ بن رہا تھا۔۔۔ وہ ماں بن کر دھرتی کی ہرشے کو اپنی گود میں لینے کو کیوں تیار ہو رہی تھی؟‘‘کیا یہ ’’کرونا‘‘ کے وشال روپ کا یا ممتا یعنی عورت کے ترفع یافتہ تخلیقی وجود کا چہرہ نہیں جو کائنات کے بھید بھرے سنگیت کا حصہ ہے لیکن جو کانوں میں اسی وقت آتا ہے جب ہم ظاہری معمولہ حقائق کی آلائشوں میں گھری آنکھوں کو بند کر لیتے ہیں اور اندر کی آنکھوں سے متن کی روح میں سفر کرتے ہیں۔ کرونا کی یہ تہ نشیں لہر پورے بیانیہ کی Irony میں جاری رہتی ہے جو سوگندھی اور مادھو کے رشتے کے قول محال کی صورت میں تشکیل پذیر ہوتا رہتا ہے۔ حتی کہ رات کے پچھلے پہر کی پراسرار خاموشی میں ٹارچ کی چکاچوند اور سیٹھ کی ’’اونھ‘‘ روٹین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ’’گالی اس کے پیٹ کے اندر سے اٹھی اور زبان کی نوک پر آکر رک گئی۔ وہ آخر گالی کسے دیتی۔ موٹر تو جا چکی تھی۔ اس کی دُم کی سرخ بتی اس کے سامنے بازار کے اندھیارے میں ڈوب رہی تھی اور سوگندھی کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ لال لال انگارہ’’اونھ‘‘ اس کے سینے میں برمے کی طرح اترتی چلی جا رہی ہے۔‘‘
’تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ مگر ہم سب مجبور ہیں۔۔۔ اور اسی لیے تم کو بلوایا ہے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ تمھارے ہاتھ ہمارے طرح خالی نہیں بلکہ ان میں قلم کی صورت میں ایک طاقتور ہتھیار ہے جو کسی بھی قوم کی قسمت بدلنے کی صلا حیت رکھتا ہے۔۔۔ تمھیں اب ہم سب کے لیے قلم اُٹھانا ہوگا تمھیں ہمارے حق کے لیے لڑنا ہوگا، ہمارے دکھوں کو سب کے سامنے بیان کرنا ہوگا۔۔۔ اور ہمیں اس زمین پر اپنے حق کے ساتھ اپنی مرضی سے جینے کا حق دلانا ہوگا۔۔۔ ہمارے لیے اب تم ہی روشنی کی وہ کرن ہو جو ہم جیسوں کو ایک زندہ روح و جسم والا انسان ثابت کر نے کا حوصلہ اور ہمت رکھتی ہے۔۔۔ خدا کے لیے ہمیں معاشرے کے خود ساختہ غیرت مندوں کی بھینٹ چڑھنے سے روک لو۔۔۔ احتجاج کرو۔۔۔ دل سے۔۔۔ زبان سے۔۔۔ ارادوں سے اور سب سے زیادہ قلم سے۔۔۔ یہ سب تم کر سکتی ہوں۔۔۔ تم ہی ہم سب کی آخری امید ہو‘۔۔۔اس کی بات پوری ہو تے ہی کمرے کی فضا احتجاج احتجاج کے نعروں سے گونج اٹھی۔۔۔ میں عجیب کشمکش میں مبتلا ہو چکی تھی میرے اعصاب تھک چکے تھے میں نے کمرے سے باہر چھلانگ لگائی۔۔۔ میں ایک عجیب و غریب صورتِ حال کا شکار ہو چکی تھی مَیں ہر دروازے کواِس اُمید کے ساتھ کھولتی کہ مجھے باہر کا راستہ دکھائی دےگا مگر ہر بار ایک نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا مجھ میں مزید جھٹکے سہنے کی سکت نہیں رہی تھی۔۔۔ غم۔۔۔ صدمے۔۔۔ غصے۔۔۔ بےبسی۔۔۔ اور لاچاری کی کیفیات اب مجھ پر حاوی ہونے لگی تھی۔۔۔ لیکن یہاں سے جلد از جلد نکل بھاگنے کی خواہش بھی اپنی جگہ مو جود تھی۔۔۔ خود کو نیا حوصلہ دیتے ہو ئے مَیں نے اگلے دروازے کی جانب رخ کیا اور سہمے سہمے قدموں سے اندر داخل ہو گئی۔۔۔ اندر داخل ہوتے ہی میری آنکھیں روشنی کی چکاچوند سے چندھیا گئیں اور جب ذرا دیکھنے کے قابل ہوئیں تو مَیں اور پریشان ہو گئی یہاں تو پہلے چار دروازوں سے زیادہ الگ اور مختلف صورت حال تھی۔۔۔ہر
دو لخت ہوا ہوں میں تری جلوہ گری سےایسی ہے چکاچوند کہ سائے سے جدا ہوں
اکبر الہ آبادی کی شاعری کایہ ایک اہم ترین موضوع ہے۔ اکبرؔ کو سلطنت کے چھن جانے کا اتنا غم نہ تھا جتنا افسوس قدیم طرزِ معاشرت کے اختلال اور تہذیبی روایات کے زوال کا تھا۔ کیونکہ اس کے سبب زندگی کی وہ ساری قدریں ہی ملیامیٹ ہورہی تھیں، جو مشرق کے لیے سرمایۂ ناز اور انسانی شرافتوں کے لیے باعث افتخار رہی ہیں۔ سیاسی محکومی سے بھی زیادہ اکبر کو ابنائے وطن کی ذہنی محکومی کا شدید قلق اور افسوس تھا جو ایوانہائے مغرب کی ظاہری چکاچوند سے اتنے زیادہ مرعوب ہوگئے تھے کہ اپنی تہذیبی روایات اور معاشرتی اقدار کو قدامت کا نمونہ اور جہالت کی پیداوار قرار دے کر اندھا دھند مغرب کی سطحی تقلید و پیروی کر رہے تھے، ہرگز نہیں ہم کو سلطنت کا افسوس
وہ چکا چوند وہ شہر کے جلوےوہ تماشے وہ کرتب اجالوں کے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books