ایسی دنیا میں کب تک گزارا کریں تم ہی کہہ دو کہ کیسے گوارا کریں
رات مجھ سے مری بے بسی نے کہا بے بسی کے لئے ایک تازہ غزل
بے بسی سے نجات مل جائے
پھر سوال و جواب کر لینا
کیا شکل ہے وصل میں کسی کی
تصویر ہیں اپنی بے بسی کی
حدیث دل بہ زبان نظر بھی کہہ نہ سکا
حضور حسن بڑھی اور بے بسی میری
اٹھانے والے ہمیں بزم سے ذرا یہ دیکھ
کہ ٹوٹتا ہے غریبوں کا آسرا کیسے
میں تمہیں پا نہ سکوں تم مجھے اپنا نہ سکو
پھر یہی کھیل مری جان دوبارہ ہو جائے