میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
جو لونڈا چھوڑ کر رنڈی کو چاہے
وہ کوئی عاشق نہیں ہے بوالہوس ہے
حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا
کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میر
بہہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمہاری رال کچھ
کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت تھیں
اس نسخے کی کوئی نہ رہی حیف دوا یاد
باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر
یہ نرم شانے لونڈے ہیں مخمل دو خوابا
گر ٹھہرے ملک آگے انھوں کے تو عجب ہے
پھرتے ہیں پڑے دلی کے لونڈے جو پری سے
دھولا چکے تھے مل کر کل لونڈے میکدے کے
پر سرگراں ہو واعظ جاتا رہا سٹک کر
امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا
یاں تلک خوش ہوں امارد سے کہ اے رب کریم
کاش دے حور کے بدلے بھی تو غلماں مجھ کو
میر اس قاضی کے لونڈے کے لیے آخر موا
سب کو قضیہ اس کے جینے کا تھا بارے چک گیا
لیا میں بوسہ بہ زور اس سپاہی زادے کا
عزیزو اب بھی مری کچھ دلاوری دیکھی
ہاتھ چڑھ جائیو اے شیخ کسو کے نہ کبھو
لونڈے سب تیرے خریدار ہیں میخانے کے