اکبر الہ آبادی کی "شوخیاں"
اس کلیکشن میں اکبر الہ آبادی کے کچھ ایسے شعروں کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں طنز و مزاح کے مختلف رنگ دیکھنے کو ملیں گے ۔ پڑھئے اور لطف اٹھایئے ۔
دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو
طول شب فراق کو تو ناپ دیجئے
تشریح
یہ شعر اکبر الہ آبادی کے خاص ظریفانہ لہجے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں طنز کے ساتھ مزاح کا پہلو بھی ہے۔ علم ریاضی کے دعویدار پر جہاں طنز ہے وہیں شبِ فراق کی لمبائی کو ناپنے میں مزاح کا پہلو ہے۔ شبِ فراق یعنی محبوب سے عاشق کی جدائی کی رات بہت لمبی تصور کی جاتی ہے۔ اس موضوع کی مناسبت سے اردو شاعروں نے طرح طرح کے مضامین پیدا کئے ہیں، مگر زیرِ بحث شعر کو اس کے ظرافتی پہلو نے دلچسپ بنایا ہے۔
غالب نے اپنے ایک شعر میں محبوب کی کمر کے بارے میں کہا ہے :
ہے کیا جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں
جس طرح غالب نے اپنے محبوب کی کمر کو موہوم یعنی نہ ہونے کے برابر مانا ہے اسی طرح اکبر الہ آبادی عاشق کی معشوق سے جدائی کی رات کی لمبائی کو اس قدر طویل مانتے ہیں کہ اس کی پیمایش ممکن نہیں۔ چونکہ اکبر الہ آبادی ایک خاص فکر کے شاعر ہیں اور وہ مغربیت کو مشرقیت کی روح کے لئے مضر مانتے ہیں اس لئے انہوں نے جگہ جگہ پر مغربی معاشرے، اس کے علوم وغیرہ پر طنز کئے ہیں۔ اس شعر کی ایک معنوی جہت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص علمِ ریاضی کا بہت بڑا عالم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو چونکہ علم ریاضی کا ایک پہلو پیمائش بھی ہے اس لئے میں اس کا دعویٰ تب حق تسلیم کروں گا، جب وہ شبِ جدائی کی طولانی ناپ کے دکھائے۔
شفق سوپوری
تشریح
یہ شعر اکبر الہ آبادی کے خاص ظریفانہ لہجے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں طنز کے ساتھ مزاح کا پہلو بھی ہے۔ علم ریاضی کے دعویدار پر جہاں طنز ہے وہیں شبِ فراق کی لمبائی کو ناپنے میں مزاح کا پہلو ہے۔ شبِ فراق یعنی محبوب سے عاشق کی جدائی کی رات بہت لمبی تصور کی جاتی ہے۔ اس موضوع کی مناسبت سے اردو شاعروں نے طرح طرح کے مضامین پیدا کئے ہیں، مگر زیرِ بحث شعر کو اس کے ظرافتی پہلو نے دلچسپ بنایا ہے۔
غالب نے اپنے ایک شعر میں محبوب کی کمر کے بارے میں کہا ہے :
ہے کیا جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں
جس طرح غالب نے اپنے محبوب کی کمر کو موہوم یعنی نہ ہونے کے برابر مانا ہے اسی طرح اکبر الہ آبادی عاشق کی معشوق سے جدائی کی رات کی لمبائی کو اس قدر طویل مانتے ہیں کہ اس کی پیمایش ممکن نہیں۔ چونکہ اکبر الہ آبادی ایک خاص فکر کے شاعر ہیں اور وہ مغربیت کو مشرقیت کی روح کے لئے مضر مانتے ہیں اس لئے انہوں نے جگہ جگہ پر مغربی معاشرے، اس کے علوم وغیرہ پر طنز کئے ہیں۔ اس شعر کی ایک معنوی جہت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص علمِ ریاضی کا بہت بڑا عالم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو چونکہ علم ریاضی کا ایک پہلو پیمائش بھی ہے اس لئے میں اس کا دعویٰ تب حق تسلیم کروں گا، جب وہ شبِ جدائی کی طولانی ناپ کے دکھائے۔
شفق سوپوری
-
موضوعات : علماور 1 مزید
-
موضوع : طنز و مزاح
-
موضوعات : پارلیمنٹاور 3 مزید
-
موضوع : طنز و مزاح
-
موضوعات : ادااور 1 مزید