دنیا پر اشعار
دنیا کو ہم سب نے اپنی
اپنی آنکھ سے دیکھا اور برتا ہے اس عمل میں بہت کچھ ہمارا اپنا ہے جو کسی اور کا نہیں اور بہت کچھ ہم سے چھوٹ گیا ہے ۔ دنیا کو موضوع بنانے والے اس خوبصورت شعری انتخاب کو پڑھ کر آپ دنیا سے وابستہ ایسے اسرار سے واقف ہوں گے جن تک رسائی صرف تخلیقی اذہان ہی کا مقدر ہے ۔ ان اشعار کو پڑھ کر آپ دنیا کو ایک بڑے سیاق میں دیکھنے کے اہل ہوں گے ۔
یہ دنیا ہے یہاں اصلی کہانی پشت پر رکھنا
لبوں پر پیاس رکھنا اور پانی پشت پر رکھنا
غم زمانہ نے مجبور کر دیا ورنہ
یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے
-
موضوع : آرزو
جب یہاں رہنے کے سب اسباب یکجا کر لئے
تب کھلا مجھ پر کہ میں دنیا کا باشندہ نہ تھا
-
موضوع : سفر
کف افسوس ملنے سے بھلا اب فائدہ کیا ہے
دل راحت طلب کیوں ہم نہ کہتے تھے یہ دنیا ہے
کار دنیا کو بھی کار عشق میں شامل سمجھ
اس لیے اے زندگی تیری پتہ رکھتا ہوں میں
-
موضوع : زندگی
دنیا بدل رہی ہے زمانہ کے ساتھ ساتھ
اب روز روز دیکھنے والا کہاں سے لائیں
گنوا دی عمر جس کو جیتنے میں
وہ دنیا میری جاں تیری نہ میری
پھر سے خدا بنائے گا کوئی نیا جہاں
دنیا کو یوں مٹائے گی اکیسویں صدی
دنیا کی کیا چاہ کریں
دنیا آنی جانی ہے
لائی ہے کہاں مجھ کو طبیعت کی دو رنگی
دنیا کا طلب گار بھی دنیا سے خفا بھی
-
موضوع : خفا
گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا
-
موضوع : گاؤں
قلندری مری پوچھو ہو دوستان جنوں
ہر آستاں مری ٹھوکر ث جانا جاتا ہے
یہ دنیا ہے یہاں ہر آبگینہ ٹوٹ جاتا ہے
کہیں چھپتے پھرو آخر زمانہ ڈھونڈھ ہی لے گا
بس ہم دونوں زندہ ہیں
باقی دنیا فانی ہے
اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے
دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا
یاں لوگ عجب عجب ملیں گے
خدا جانے یہ دنیا جلوہ گاہ ناز ہے کس کی
ہزاروں اٹھ گئے لیکن وہی رونق ہے مجلس کی
دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا
اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا
دنیا بہت خراب ہے جائے گزر نہیں
بستر اٹھاؤ رہنے کے قابل یہ گھر نہیں
ہم کہ اپنی راہ کا پتھر سمجھتے ہیں اسے
ہم سے جانے کس لیے دنیا نہ ٹھکرائی گئی
ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت
پھر بھی اے دوست تری ایک نظر سے کم ہے
-
موضوع : دل
مجھ پہ ہو کر گزر گئی دنیا
میں تری راہ سے ہٹا ہی نہیں
اک درد محبت ہے کہ جاتا نہیں ورنہ
جس درد کی ڈھونڈے کوئی دنیا میں دوا ہے
امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
-
موضوع : امید
مری تو ساری دنیا بس تمہی ہو
غلط کیا ہے جو دنیا دار ہوں میں
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
-
موضوعات : بہانہاور 1 مزید
دنیا تو ہے دنیا کہ وہ دشمن ہے سدا کی
سو بار ترے عشق میں ہم خود سے لڑے ہیں
دنیا کی روش دیکھی تری زلف دوتا میں
بنتی ہے یہ مشکل سے بگڑتی ہے ذرا میں
تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ
دنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا
بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ
نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے
ہم یقیناً یہاں نہیں ہوں گے
غالباً زندگی رہے گی ابھی
میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں
کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں
ماں کہتی تھی دکھ تو رہے گا دنیا میں
جیسے سب رہتے ہیں میرے لعل رہو
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
-
موضوعات : شراباور 1 مزید
دنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت
سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے
-
موضوع : دل
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
کس خرابی سے زندگی فانیؔ
اس جہان خراب میں گزری
-
موضوع : زندگی
مکمل داستاں کا اختصار اتنا ہی کافی ہے
سلایا شور دنیا نے جگایا شور محشر نے
مجھ کو عطا ہوا ہے یہ کیسا لباس زیست
بڑھتے ہیں جس کے چاک برابر رفو کے ساتھ
-
موضوعات : زندگیاور 2 مزید
اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے
اب بھی کچھ لوگ ہیں زندہ کہ جہاں باقی ہے
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے
دنیا ہے تری زلف گرہ گیر نہیں ہے
پاؤں جب سمٹے تو رستے بھی ہوئے تکیہ نشیں
بوریا جب تہ کیا دنیا اٹھا کر لے گئے
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے
عیال و مال نے روکا ہے دم کو آنکھوں میں
یہ ٹھگ ہٹیں تو مسافر کو راستہ مل جائے
معشوقوں سے امید وفا رکھتے ہو ناسخؔ
ناداں کوئی دنیا میں نہیں تم سے زیادہ
یہ ہم نے بھی سنا ہے عالم اسباب ہے دنیا
یہاں پھر بھی بہت کچھ بے سبب ہوتا ہی رہتا ہے