Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسن پر اشعار

ہم حسن کو دیکھ سکتے

ہیں ،محسوس کرسکتے ہیں اس سے لطف اٹھا سکتے ہیں لیکن اس کا بیان آسان نہیں ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب حسن دیکھ کر پیدا ہونے والے آپ کے احساسات کی تصویر گری ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ شاعروں نے کتنے اچھوتے اور نئے نئے ڈھنگ سے حسن اور اس کی مختلف صورتوں کو بیان کیا ۔ ہمارا یہ انتخاب آپ کو حسن کو ایک بڑے اور کشادہ کینوس پر دیکھنے کا اہل بھی بنائے گا ۔ آپ اسے پڑھئے اور حسن پرستوں میں عام کیجئے ۔

دیکھتے ہیں تو لہو جیسے رگیں توڑتا ہے

ہم تو مر جائیں گے سینے سے لگا کر اس کو

عرفان صدیقی

اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خودبخود

رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

حسرتؔ موہانی

پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو

سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

قمر جلالوی

زمانہ حسن نزاکت بلا جفا شوخی

سمٹ کے آ گئے سب آپ کی اداؤں میں

کالی داس گپتا رضا

حسن کے ہر جمال میں پنہاں

میری رعنائی خیال بھی ہے

جگر مراد آبادی

یہ دلبری یہ ناز یہ انداز یہ جمال

انساں کرے اگر نہ تری چاہ کیا کرے

اکبر الہ آبادی

حسن کو دنیا کی آنکھوں سے نہ دیکھ

اپنی اک طرز نظر ایجاد کر

احسان دانش

جتنا دیکھو اسے تھکتی نہیں آنکھیں ورنہ

ختم ہو جاتا ہے ہر حسن کہانی کی طرح

زیب غوری

تفریق حسن و عشق کے انداز میں نہ ہو

لفظوں میں فرق ہو مگر آواز میں نہ ہو

منظر لکھنوی

اللہ رے ان کے حسن کی معجز نمائیاں

جس بام پر وہ آئیں وہی کوہ طور ہو

نوح ناروی

پھول مہکیں گے یوں ہی چاند یوں ہی چمکے گا

تیرے ہوتے ہوئے منظر کو حسیں رہنا ہے

اشفاق حسین

اگر آ جائے پہلو میں قمرؔ وہ ماہ کامل بھی

دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہوگی

قمر جلالوی

وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں

طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا

وزیر آغا

کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے

ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے

جگر مراد آبادی

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

حسرتؔ موہانی

تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول

صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار

قمر جلالوی

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں

جلیل مانک پوری

ایک ہی انجام ہے اے دوست حسن و عشق کا

شمع بھی بجھتی ہے پروانوں کے جل جانے کے بعد

اختر مسلمی

اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ

چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے

مرزا غالب

حسن کو شرمسار کرنا ہی

عشق کا انتقام ہوتا ہے

اسرار الحق مجاز

کوہ سنگین حقائق تھا جہاں

حسن کا خواب تراشا ہم نے

روش صدیقی

تمہارا حسن آرائش تمہاری سادگی زیور

تمہیں کوئی ضرورت ہی نہیں بننے سنورنے کی

اثر لکھنوی

ابرو نے مژہ نے نگۂ یار نے یارو

بے‌ رتبہ کیا تیغ کو خنجر کو سناں کو

نامعلوم

ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا

دوپٹا آسمان آسماں ہے

خواجہ محمد وزیر

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

فراق گورکھپوری

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

فراق گورکھپوری

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

وہ لالہ بدن جھیل میں اترا نہیں ورنہ

شعلے متواتر اسی پانی سے نکلتے

محفوظ الرحمان عادل

حسن کے جلوے نہیں محتاج چشم آرزو

شمع جلتی ہے اجازت لے کے پروانے سے کیا

آنند نرائن ملا

تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے

تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے

کیف بھوپالی

چاند مشرق سے نکلتا نہیں دیکھا میں نے

تجھ کو دیکھا ہے تو تجھ سا نہیں دیکھا میں نے

سعید قیس

صورت تو ابتدا سے تری لا جواب تھی

ناز و ادا نے اور طرح دار کر دیا

جلیل مانک پوری

واہ کیا اس گل بدن کا شوخ ہے رنگ بدن

جامۂ آبی اگر پہنا گلابی ہو گیا

مظفر علی اسیر

ہمیشہ آگ کے دریا میں عشق کیوں اترے

کبھی تو حسن کو غرق عذاب ہونا تھا

کرامت علی کرامت

آستیں اس نے جو کہنی تک چڑھائی وقت صبح

آ رہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں

مصحفی غلام ہمدانی

حسن اور عشق کا مذکور نہ ہووے جب تک

مجھ کو بھاتا نہیں سننا کسی افسانے کا

جوشش عظیم آبادی

چراغ چاند شفق شام پھول جھیل صبا

چرائیں سب نے ہی کچھ کچھ شباہتیں تیری

انجم عرفانی

روشنی کے لیے دل جلانا پڑا

کیسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد

خمار بارہ بنکوی

اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے

جس نے ڈالی بری نظر ڈالی

عالمگیر خان کیف

خدا کے ڈر سے ہم تم کو خدا تو کہہ نہیں سکتے

مگر لطف خدا قہر خدا شان خدا تم ہو

نوح ناروی

تجھ کو شکوہ ہے کہ عشاق نے بد نام کیا

سچ تو یہ ہے کہ ترا حسن ہے دشمن تیرا

جلیل مانک پوری

دیکھتے ہیں تو لہو جیسے رگیں توڑتا ہے

ہم تو مر جائیں گے سینے سے لگا کر اس کو

عرفان صدیقی

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں

یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

علامہ اقبال

وہ نہا کر زلف پیچاں کو جو بکھرانے لگے

حسن کے دریا میں پنہاں سانپ لہرانے لگے

شاد لکھنوی

کون ثانی شہر میں اس میرے ماہ پارے کی ہے

چاند سی صورت دوپٹہ سر پہ یک تارے کا ہے

عبدالرحمان احسان دہلوی

جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں

عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی

امجد اسلام امجد

کس کے چہرے سے اٹھ گیا پردہ

جھلملائے چراغ محفل کے

حسن بریلوی

حسن ایسا کہ زمانے میں نہیں جس کی مثال

اور جمال ایسا کہ ڈھونڈا کرے ہر خواب و خیال

انور جمال انور

ستم نوازئ پیہم ہے عشق کی فطرت

فضول حسن پہ تہمت لگائی جاتی ہے

شکیل بدایونی

چاندنی راتوں میں چلاتا پھرا

چاند سی جس نے وہ صورت دیکھ لی

رند لکھنوی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے