معید رشیدی کے اشعار
چند یادوں کے دیے تھوڑی تمنا کچھ خواب
زندگی تجھ سے زیادہ نہیں مانگا ہم نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس بار اجالوں نے مجھے گھیر لیا تھا
اس بار مری رات مرے ساتھ چلی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھ کو پانے کی تمنا میں وہ غرقاب ہوا
میں نے ساحل کی تمنا میں اسے کھویا ہے
جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں یہ سوال تھا
جو ملا نہیں وہ بچھڑ گیا یہ کمال ہے
یہ ہجرتوں کے تماشے، یہ قرض رشتوں کے
میں خود کو جوڑتے رہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے عقل نہیں آئیں گے باتوں میں تری ہم
نادان تھے نادان ہیں نادان رہیں گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ چاہتے ہیں کہ ہر بات مان لی جائے
اور ایک میں ہوں کہ ہر بات کاٹ دیتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اتنا آساں نہیں لفظوں کو غزل کر لینا
شور کو شعر بنانے میں جگر لگتا ہے
لمحے لمحے سے بنی ہے یہ زمانے کی کتاب
نقطہ نقطہ یہاں صدیوں کا سفر لگتا ہے
زندگی ہم ترے کوچے میں چلے آئے تو ہیں
تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم یہی سمجھے تھے اک دل ہی تو ہے اپنے لیے
ہم کہاں سمجھے تھے اتنا سر پھرا ہو جائے گا
اس کو بھی کسی طرح بھروسا نہیں تھا
میں نے بھی کسی طور صفائی نہیں دی
اسی جواب کے رستے سوال آتے ہیں
اسی سوال میں سارا جواب ٹھہرا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زندگی آج ذرا ہنس کے گلے لگ مجھ سے
تیری آنکھوں میں ندامت نہیں دیکھی جاتی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب اس سے پہلے کہ رسوائی اپنے گھر آتی
تمہارے شہر سے ہم با ادب نکل آئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خواب میں توڑتا رہتا ہوں انا کی زنجیر
آنکھ کھلتی ہے تو دیوار نکل آتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خود کو برباد کر کے دیکھنا تھا
خود کو برباد کر کے دیکھ لیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ٹھہرے ہوئے پانی کا مقدر نہیں ہوتا
بہتے ہوئے پانی کا تقاضا ہے گزر جا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی آتا ہے یا نہیں آتا
آج خود کو پکار کر دیکھیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خوف ہے دھند بھری رات ہے تنہائی ہے
میرے کمرے میں ابھی رات ہے تنہائی ہے
دھوکا ہے نمائش ہے تماشا ہے گزر جا
یہ رونق بازار یہ دنیا ہے گزر جا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے عقل نہیں آئیں گے باتوں میں تری ہم
نادان تھے نادان ہیں نادان رہیں گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عشق کرنے کے بعد بھی کچھ لوگ
یہ سمجھتے ہیں کچھ کیا ہی نہیں
جانے کتنا وقت لگے گا خود سے باہر آنے میں
تنہائی کا شور بہت ہے شہروں کے ویرانے میں
آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا
میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک کھڑکی کھلی رہتی ہے نظر میں ہر دم
ایک منظر پس منظر بھی نظر آتا ہے
اب اعتبار نہیں میری جاں کسی کا نہیں
چراغ سب کے لیے ہے دھواں کسی کا نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شہر اب مانگتا ہے سانس بھی لینے کا حساب
زندگی مجھ سے قیامت کا سبب پوچھتی ہے
تو مجھے زہر پلاتی ہے یہ تیرا شیوہ
اے مری رات تجھے خون پلایا میں نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ اجنبی رستوں سے چراغوں کی تھکن کا
بے نام سا رشتہ ہے تو بے نام ہی رہ جائے
اپنی تنہائی کو بازار سمجھتے رہے ہم
زندگی تجھ کو خریدار سمجھتے رہے ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو
اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے
اس بار مری روح پہ تلوار چلی ہے
اس بار سنبھلنے میں ذرا دیر لگے گی
زندگی ہم ترے کوچے میں چلے آئے تو ہیں
تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چین پڑتا ہی نہیں اور یہ دل
روز کہتا ہے کہ یوں ہے یوں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب کے وحشت نے مجھے روک لیا ہے ورنہ
پچھلے موسم کی طرح لوٹ کے گھر جانا تھا
ہم ترے شہر سے ملتے ہیں گزر جاتے ہیں
تجھ سے ملنے میں تو تلوار نکل آتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سانسوں میں کوئی خون سا دریا ہے کہ میں ہوں
سینے میں کوئی شور سا برپا ہے کہ تم ہو
جب یہ جسم سلگتا ہے تو روح بھی جلنے لگتی ہے
پروانے کا عشق مکمل ہوتا ہے جل جانے میں
یہ مرا شہر کہ جینے نہیں دیتا مجھ کو
اب ترا نام بھی لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے
بت تراشا تھا انہی ہاتھوں سے میں نے ایک دن
پر کسے معلوم تھا وہ بت خدا ہو جائے گا
چھوٹی سی ایک بات کا افسانہ ہو گیا
چھوٹی سی ایک بات چھپانے سے رہ گئی
ترے وصال کی رعنائیوں سے ڈرتا ہوں
مجھے تو ہجر کے آداب بھی نہیں معلوم
یہ ہجرتوں کے تماشے یہ قرض رشتوں کے
میں خود کو جوڑتے رہنے میں ٹوٹ جاتا ہوں
وہ چاہتے ہیں کہ ہر بات مان لی جائے
اور ایک میں ہوں کہ ہر بات کاٹ دیتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک نظر دیکھ مرے دل کی طرف جان مراد
آئنہ سینۂ صد چاک سے بہتر تو نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے
خانۂ دل میں نہاں جیسے خدا رہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رس گھولتے شیریں لفظوں کی تاثیر سے خوشبو آتی ہے
انداز بیاں سے لہجے سے تقریر سے خوشبو آتی ہے