Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mushafi Ghulam Hamdani's Photo'

مصحفی غلام ہمدانی

1747 - 1824 | لکھنؤ, انڈیا

اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر

اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر

مصحفی غلام ہمدانی کی ٹاپ ٢٠ شاعری

مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

تشریح

یہ مصحفیؔ کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ خیال نازک ہے اس لئے لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اس شعر میں دو کردار ہیں ایک ہے مصحفیؔ سے گفتگو کرنے والا اور دوسرا خود مصحفی۔

ہم تو یہ سمجھتے تھے میں تعجب بھی اور اظہار افسوس بھی ’’ہو کوئی زخم‘‘ یعنی کوئی ایک آدھ عام سا زخم ہوگا جو خودبخود بھر جائے گا۔ رفو کرنے کے معنی ہیں پھٹے ہوئے کپڑے کو دھاگے سے مرمت کرنا۔ پھٹی ہوئی جگہ کو بھرنا۔ اردو شاعری میں ’’رفو‘‘ کا لفظ بہت استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے مراد عاشق کے دل کے زخموں کی مرمت یعنی ٹانکے لگانا ہے۔

شاعر سے متکلم یعنی اس سے بات کرنے والا کہتا ہے اے مصحفیؔ! تم نے تو یہ جانا تھا کہ تمہارے دل میں کوئی زخم ہوگا جو خودبخود بھرجائے گا مگر جب میں نے اس میں جھانک کر دیکھا تومیں نے یہ پایا کہ تمہارے دل میں بہت سے زخم موجود ہیں جنہیں مرمت کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ زخم عشق کے ہیں۔ کوئی اصلی زخم نہیں ہیں کہ جن پر ٹانکے لگائے جائیں جن پر مرہم رکھا جائے۔ اس لئے یہاں رفو سے مطلب یہ کہ ان زخموں کی مرمت تب ہی ہوگی جب شاعر کا محبوب اس کی طرف توجہ دے گا۔

اس طرح سے شعر کا مفہوم یہ نکلتا ہے اے مصحفی بظاہر تمہارے دل میں لگتا تھا کہ کوئی ایک آدھ زخم ہوگا جو خود بخود بھر جائے گا مگر دیکھنے پر معلوم ہواکہ دراصل تم نے عشق میں دل پر بہت زخم کھائے ہیں اور ان زخموں کی مرمت کرنا کوئی آسان کام نہیں البتہ تمہارا محبوب اگر تمہاری طرف لطف کی نگاہوں سے دیکھے گا تو یہ زخم بھر سکتے ہیں۔

شفق سوپوری

تشریح

یہ مصحفیؔ کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ خیال نازک ہے اس لئے لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اس شعر میں دو کردار ہیں ایک ہے مصحفیؔ سے گفتگو کرنے والا اور دوسرا خود مصحفی۔

ہم تو یہ سمجھتے تھے میں تعجب بھی اور اظہار افسوس بھی ’’ہو کوئی زخم‘‘ یعنی کوئی ایک آدھ عام سا زخم ہوگا جو خودبخود بھر جائے گا۔ رفو کرنے کے معنی ہیں پھٹے ہوئے کپڑے کو دھاگے سے مرمت کرنا۔ پھٹی ہوئی جگہ کو بھرنا۔ اردو شاعری میں ’’رفو‘‘ کا لفظ بہت استعمال ہوا ہے۔ اور اس سے مراد عاشق کے دل کے زخموں کی مرمت یعنی ٹانکے لگانا ہے۔

شاعر سے متکلم یعنی اس سے بات کرنے والا کہتا ہے اے مصحفیؔ! تم نے تو یہ جانا تھا کہ تمہارے دل میں کوئی زخم ہوگا جو خودبخود بھرجائے گا مگر جب میں نے اس میں جھانک کر دیکھا تومیں نے یہ پایا کہ تمہارے دل میں بہت سے زخم موجود ہیں جنہیں مرمت کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ زخم عشق کے ہیں۔ کوئی اصلی زخم نہیں ہیں کہ جن پر ٹانکے لگائے جائیں جن پر مرہم رکھا جائے۔ اس لئے یہاں رفو سے مطلب یہ کہ ان زخموں کی مرمت تب ہی ہوگی جب شاعر کا محبوب اس کی طرف توجہ دے گا۔

اس طرح سے شعر کا مفہوم یہ نکلتا ہے اے مصحفی بظاہر تمہارے دل میں لگتا تھا کہ کوئی ایک آدھ زخم ہوگا جو خود بخود بھر جائے گا مگر دیکھنے پر معلوم ہواکہ دراصل تم نے عشق میں دل پر بہت زخم کھائے ہیں اور ان زخموں کی مرمت کرنا کوئی آسان کام نہیں البتہ تمہارا محبوب اگر تمہاری طرف لطف کی نگاہوں سے دیکھے گا تو یہ زخم بھر سکتے ہیں۔

شفق سوپوری

بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے

کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا

اے مصحفیؔ تو ان سے محبت نہ کیجیو

ظالم غضب ہی ہوتی ہیں یہ دلی والیاں

آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں

یا عشق کی پکڑ کر گردن مروڑ ڈالوں

آساں نہیں دریائے محبت سے گزرنا

یاں نوح کی کشتی کو بھی طوفان کا ڈر ہے

آستیں اس نے جو کہنی تک چڑھائی وقت صبح

آ رہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں

اللہ رے تیرے سلسلۂ زلف کی کشش

جاتا ہے جی ادھر ہی کھنچا کائنات کا

ابھی آغاز محبت ہے کچھ اس کا انجام

تجھ کو معلوم ہے اے دیدۂ نم کیا ہوگا

اک دن تو لپٹ جائے تصور ہی سے تیرے

یہ بھی دل نامرد کو جرأت نہیں ملتی

اے کاش کوئی شمع کے لے جا کے مجھے پاس

یہ بات کہے اس سے کہ پروانہ ہے یہ بھی

اس واسطے فرقت میں جیتا مجھے رکھا ہے

یعنی میں تری صورت جب یاد کروں روؤں

اس رنگ سے اپنے گھر نہ جانا

دامن ترا خوں میں تر بہت ہے

ایک نالے پہ ہے معاش اپنی

ہم غریبوں کی ہے یہی معراج

معلوم نہیں مجھ کو کہ جاوے گا کدھر کو

یوں سینہ ترا چاک گریباں سے نکل کر

کوچۂ زلف میں پھرتا ہوں بھٹکتا کب کا

شب تاریک ہے اور ملتی نہیں راہ کہیں

اس نے گالی مجھے دی ہو کے عتاب آلودہ

اور میں سادہ اسے لطف زبانی سمجھا

یہ کہہ کے بیٹھ رہوں ہوں جو اپنے گھر میں ذرا

تو دل کہے ہے یہ گھبرا کے ''میں تو جاتا ہوں''

اس کے جانے سے مرا دل ہے مرے سینے میں

دم کا مہمان چراغ سحری کی صورت

کمر یار کے مذکور کو جانے دے میاں

تو قدم اس میں نہ رکھ راہ یہ باریک ہے دل

ہووے گی صبح روشن اک دم میں وصل کی شب

بند قبا کو اپنے ظالم نہ باز کرنا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے