Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زلف پر اشعار

شاعری میں زلف کا موضوع

بہت دراز رہا ہے ۔ کلاسیکی شاعری میں تو زلف کے موضوع کے تئیں شاعروں نے بے پناہ دلچسپی دکھائی ہے یہ زلف کہیں رات کی طوالت کا بیانیہ ہے تو کہیں اس کی تاریکی کا ۔اور اسے ایسی ایسی نادر تشبہیوں ، استعاروں اور علامتوں کے ذریعے سے برتا گیا ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے ۔ شاعری کا یہ حصہ بھی شعرا کے بے پناہ تخیل کی عمدہ مثال ہے ۔

صبح دم زلفیں نہ یوں بکھرائیے

لوگ دھوکا کھا رہے ہیں شام کا

شرر بلیاوی

برسات کا مزا ترے گیسو دکھا گئے

عکس آسمان پر جو پڑا ابر چھا گئے

لالہ مادھو رام جوہر

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

مرزا غالب

آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت

بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے

حیدر علی آتش

ڈر خدا سیں خوب نئیں یہ وقت قتل عام کوں

صبح کوں کھولا نہ کر اس زلف خون آشام کوں

آبرو شاہ مبارک

اے جنوں پھر مرے سر پر وہی شامت آئی

پھر پھنسا زلفوں میں دل پھر وہی آفت آئی

آسی غازی پوری

شکر ہے باندھ لیا اپنے کھلے بالوں کو

اس نے شیرازۂ عالم کو بکھرنے نہ دیا

جلیل مانک پوری

رخ روشن پہ اس کی گیسوئے شب گوں لٹکتے ہیں

قیامت ہے مسافر راستہ دن کو بھٹکتے ہیں

بھارتیندو ہریش چندر

بس اتنی سی بات تھی اس کی زلف ذرا لہرائی تھی

خوف زدہ ہر شام کا منظر سہمی سی ہر رات ملی

عقیل نعمانی

سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک

میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے

نشور واحدی

اک مرا سر کہ قدم بوسی کی حسرت اس کو

اک تری زلف کہ قدموں سے لگی رہتی ہے

مبارک عظیم آبادی

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

میر تقی میر

اے زلف یار تجھ سے بھی آشفتہ تر ہوں میں

مجھ سا نہ کوئی ہوگا پریشان روزگار

جوشش عظیم آبادی

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم

اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

حیدر علی آتش

منہ پر نقاب زرد ہر اک زلف پر گلال

ہولی کی شام ہی تو سحر ہے بسنت کی

لالہ مادھو رام جوہر

اس کے رخسار پر کہاں ہے زلف

شعلۂ حسن کا دھواں ہے زلف

جوشش عظیم آبادی

دنیا کی روش دیکھی تری زلف دوتا میں

بنتی ہے یہ مشکل سے بگڑتی ہے ذرا میں

عزیز حیدرآبادی

بال اپنے اس پری رو نے سنوارے رات بھر

سانپ لوٹے سیکڑوں دل پر ہمارے رات بھر

لالہ مادھو رام جوہر

دل سے کیا پوچھتا ہے زلف گرہ گیر سے پوچھ

اپنے دیوانے کا احوال تو زنجیر سے پوچھ

امداد امام اثر

ان کے گیسو سنورتے جاتے ہیں

حادثے ہیں گزرتے جاتے ہیں

مہیش چندر نقش

سب کے جیسی نہ بنا زلف کہ ہم سادہ نگاہ

تیرے دھوکے میں کسی اور کے شانے لگ جائیں

فرحت احساس

کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے

کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا

منور رانا

ہاتھ ٹوٹیں میں نے گر چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی

آپ کے سر کی قسم باد صبا تھی میں نہ تھا

مومن خاں مومن

اپنے سر اک بلا تو لینی تھی

میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے

جون ایلیا

زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا

رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

اصغر گونڈوی

اگر دیکھے تمہاری زلف لے ڈس

الٹ جاوے کلیجا ناگنی کا

آبرو شاہ مبارک

زلف کلمونہی کو پیارے اتنا بھی سر مت چڑھا

بے محابا منہ پہ تیرے پاؤں کرتی ہے دراز

حسرتؔ عظیم آبادی

دیکھی تھی ایک رات تری زلف خواب میں

پھر جب تلک جیا میں پریشان ہی رہا

رضا عظیم آبادی

گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بو

پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا

جلالؔ لکھنوی

تصور زلف کا ہے اور میں ہوں

بلا کا سامنا ہے اور میں ہوں

لالہ مادھو رام جوہر

کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادی

کسی کی زلف سے لازم ہے سلسلہ دل کا

یگانہ چنگیزی

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

مرزا غالب

دیکھ لیتے جو مرے دل کی پریشانی کو

آپ بیٹھے ہوئے زلفیں نہ سنوارا کرتے

جلیل مانک پوری

میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ

رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے

فانی بدایونی

بکھری ہوئی وہ زلف اشاروں میں کہہ گئی

میں بھی شریک ہوں ترے حال تباہ میں

جلیل مانک پوری

کبھی کھولے تو کبھی زلف کو بکھرائے ہے

زندگی شام ہے اور شام ڈھلی جائے ہے

پریم واربرٹنی

زلفیں منہ پر ہیں منہ ہے زلفوں میں

رات بھر صبح شام دن بھر ہے

لالہ مادھو رام جوہر

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی

اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

جرأت قلندر بخش

زلفوں میں کیا قید نہ ابرو سے کیا قتل

تو نے تو کوئی بات نہ مانی مرے دل کی

امام بخش ناسخ

ترے رخسار سے بے طرح لپٹی جائے ہے ظالم

جو کچھ کہیے تو بل کھا الجھتی ہے زلف بے ڈھنگی

شیخ ظہور الدین حاتم

کبھی بے دام ٹھہراویں کبھی زنجیر کرتے ہیں

یہ نا شاعر تری زلفاں کوں کیا کیا نام دھرتے ہیں

آبرو شاہ مبارک

یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تو سنوارے

مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی

کیفی وجدانی

دل اس کی تار زلف کے بل میں الجھ گیا

سلجھے گا کس طرح سے یہ بستار ہے غضب

شیخ ظہور الدین حاتم

کچھ اب کے ہم بھی کہیں اس کی داستان وصال

مگر وہ زلف پریشاں کھلے تو بات چلے

عزیز حامد مدنی

اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے

سنا ہے زندگی اک خوبصورت دام ہے ساقی

عبد الحمید عدم

ابر میں چاند گر نہ دیکھا ہو

رخ پہ زلفوں کو ڈال کر دیکھو

جوش لکھنوی

نکل گیا تھا وہ حسین اپنی زلف باندھ کر

ہوا کی باقیات کو سمیٹتے رہے ہیں ہم

اظہر فراغ

اے جنوں ہاتھ جو وہ زلف نہ آئی ہوتی

آہ نے عرش کی زنجیر ہلائی ہوتی

گویا فقیر محمد

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی

جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی

آرزو لکھنوی

تری جو زلف کا آیا خیال آنکھوں میں

وہیں کھٹکنے لگا بال بال آنکھوں میں

شیخ ظہور الدین حاتم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے