اظہر فراغ کے اشعار
دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں
بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں
بہت غنیمت ہیں ہم سے ملنے کبھی کبھی کے یہ آنے والے
وگرنہ اپنا تو شہر بھر میں مکان تالے سے جانا جائے
تیز آندھی میں یہ بھی کافی ہے
پیڑ تصویر میں بچا لیا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ اعتماد بھی میرا دیا ہوا ہے تمہیں
جو میرے مشورے بیکار جانے لگ گئے ہیں
تجھ سے کچھ اور تعلق بھی ضروری ہے مرا
یہ محبت تو کسی وقت بھی مر سکتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں
ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں جانتا ہوں مجھے مجھ سے مانگنے والے
پرائی چیز کا جو لوگ حال کرتے ہیں
یہ کچے سیب چبانے میں اتنے سہل نہیں
ہمارا صبر نہ کرنا بھی ایک ہمت ہے
مل گیا تو مجھے میرا نہیں رہنے دے گا
وہ سمندر مجھے قطرہ نہیں رہنے دے گا
گیلے بالوں کو سنبھال اور نکل جنگل سے
اس سے پہلے کہ ترے پاؤں یہ جھرنا پڑ جائے
محسوس کر لیا تھا بھنور کی تھکان کو
یونہی تو خود کو رقص پہ مائل نہیں کیا
دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے
کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا
اچھے خاصے لوگوں پر بھی وقت اک ایسا آ جاتا ہے
اور کسی پر ہنستے ہنستے خود پر رونا آ جاتا ہے
وہ دستیاب ہمیں اس لئے نہیں ہوتا
ہم استفادہ نہیں دیکھ بھال کرتے ہیں
میری نمو ہے تیرے تغافل سے وابستہ
کم بارش بھی مجھ کو کافی ہو سکتی ہے
ہماری معذرت اے غم کہ مسکرا رہے ہیں
ہم اپنا ہاتھ تری پشت سے ہٹا رہے ہیں
بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے
ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ویسے تو ایمان ہے میرا ان بانہوں کی گنجائش پر
دیکھنا یہ ہے اس کشتی میں کتنا دریا آ جاتا ہے
بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب تخت
جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اسے کہو جو بلاتا ہے گہرے پانی میں
کنارے سے بندھی کشتی کا مسئلہ سمجھے
ٹھہرنا بھی مرا جانا شمار ہونے لگا
پڑے پڑے میں پرانا شمار ہونے لگا
بتا رہا ہے جھٹکنا تری کلائی کا
ذرا بھی رنج نہیں ہے تجھے جدائی کا
خود پر حرام سمجھا ثمر کے حصول کو
جب تک شجر کو چھاؤں کے قابل نہیں کیا
میں یہ چاہتا ہوں کہ عمر بھر رہے تشنگی مرے عشق میں
کوئی جستجو رہے درمیاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی
آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں
ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نکل گیا تھا وہ حسین اپنی زلف باندھ کر
ہوا کی باقیات کو سمیٹتے رہے ہیں ہم
-
موضوع : زلف
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تیری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول
یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا
یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ
صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک ہونے کی قسمیں کھائی جائیں
اور آخر میں کچھ دیا لیا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گرتے پیڑوں کی زد میں ہیں ہم لوگ
کیا خبر راستہ کھلے کب تک
بہت سے سانپ تھے اس غار کے دہانے پر
دل اس لئے بھی خزانہ شمار ہونے لگا
یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرا عشق تو خیر مری محرومی کا پروردہ تھا
کیا معلوم تھا وہ بھی دے گا میرا اتنا ٹوٹ کے ساتھ
-
موضوع : عشق
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ لوگ جا کے کٹی بوگیوں میں بیٹھ گئے
سمے کو ریل کی پٹری کے ساتھ چلنے دیا
ہمارے ظاہری احوال پر نہ جا ہم لوگ
قیام اپنے خد و خال میں نہیں کرتے
ہم اپنی نیکی سمجھتے تو ہیں تجھے لیکن
شمار نامۂ اعمال میں نہیں کرتے
کسی بدن کی سیاحت نڈھال کرتی ہے
کسی کے ہاتھ کا تکیہ تھکان کھینچتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی
دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا
-
موضوع : ماں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خطوں کو کھولتی دیمک کا شکریہ ورنہ
تڑپ رہی تھی لفافوں میں بے زبانی پڑی
ازالہ ہو گیا تاخیر سے نکلنے کا
گزر گئی ہے سفر میں مرے قیام کی شام
منظر شام غریباں ہے دم رخصت خواب
تعزیے کی طرح اٹھا ہے کوئی بستر سے