Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Azhar Faragh's Photo'

پاکستان کی نئی نسل کے مشہور شاعر، ’میں کسی داستان سے ابھروں گا‘ کے نام سے شعری مجموعہ شائع ہوا

پاکستان کی نئی نسل کے مشہور شاعر، ’میں کسی داستان سے ابھروں گا‘ کے نام سے شعری مجموعہ شائع ہوا

اظہر فراغ کے اشعار

8.4K
Favorite

باعتبار

دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں

بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں

بہت غنیمت ہیں ہم سے ملنے کبھی کبھی کے یہ آنے والے

وگرنہ اپنا تو شہر بھر میں مکان تالے سے جانا جائے

تیز آندھی میں یہ بھی کافی ہے

پیڑ تصویر میں بچا لیا جائے

یہ اعتماد بھی میرا دیا ہوا ہے تمہیں

جو میرے مشورے بیکار جانے لگ گئے ہیں

تجھ سے کچھ اور تعلق بھی ضروری ہے مرا

یہ محبت تو کسی وقت بھی مر سکتی ہے

ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں

ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں

میں جانتا ہوں مجھے مجھ سے مانگنے والے

پرائی چیز کا جو لوگ حال کرتے ہیں

وصل کے ایک ہی جھونکے میں

کان سے بالے اتر گئے

یہ کچے سیب چبانے میں اتنے سہل نہیں

ہمارا صبر نہ کرنا بھی ایک ہمت ہے

مل گیا تو مجھے میرا نہیں رہنے دے گا

وہ سمندر مجھے قطرہ نہیں رہنے دے گا

گیلے بالوں کو سنبھال اور نکل جنگل سے

اس سے پہلے کہ ترے پاؤں یہ جھرنا پڑ جائے

کچھ نہیں دے رہا سجھائی ہمیں

اس قدر روشنی کا کیا کیجے

محسوس کر لیا تھا بھنور کی تھکان کو

یونہی تو خود کو رقص پہ مائل نہیں کیا

دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے

کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا

اچھے خاصے لوگوں پر بھی وقت اک ایسا آ جاتا ہے

اور کسی پر ہنستے ہنستے خود پر رونا آ جاتا ہے

وہ دستیاب ہمیں اس لئے نہیں ہوتا

ہم استفادہ نہیں دیکھ بھال کرتے ہیں

ہائے وہ بھیگا ریشمی پیکر

تولیا کھردرا لگے جس کو

میری نمو ہے تیرے تغافل سے وابستہ

کم بارش بھی مجھ کو کافی ہو سکتی ہے

ایسی غربت کو خدا غارت کرے

پھول بھجوانے کی گنجائش نہ ہو

ہماری معذرت اے غم کہ مسکرا رہے ہیں

ہم اپنا ہاتھ تری پشت سے ہٹا رہے ہیں

بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے

ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے

ویسے تو ایمان ہے میرا ان بانہوں کی گنجائش پر

دیکھنا یہ ہے اس کشتی میں کتنا دریا آ جاتا ہے

بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب تخت

جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے

اسے کہو جو بلاتا ہے گہرے پانی میں

کنارے سے بندھی کشتی کا مسئلہ سمجھے

ٹھہرنا بھی مرا جانا شمار ہونے لگا

پڑے پڑے میں پرانا شمار ہونے لگا

بتا رہا ہے جھٹکنا تری کلائی کا

ذرا بھی رنج نہیں ہے تجھے جدائی کا

خود پر حرام سمجھا ثمر کے حصول کو

جب تک شجر کو چھاؤں کے قابل نہیں کیا

میں یہ چاہتا ہوں کہ عمر بھر رہے تشنگی مرے عشق میں

کوئی جستجو رہے درمیاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں

ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں

نکل گیا تھا وہ حسین اپنی زلف باندھ کر

ہوا کی باقیات کو سمیٹتے رہے ہیں ہم

تیری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول

یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے

یہ خموشی مری خموشی ہے

اس کا مطلب مکالمہ لیا جائے

دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا

تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ

صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں

ایک ہونے کی قسمیں کھائی جائیں

اور آخر میں کچھ دیا لیا جائے

گرتے پیڑوں کی زد میں ہیں ہم لوگ

کیا خبر راستہ کھلے کب تک

بہت سے سانپ تھے اس غار کے دہانے پر

دل اس لئے بھی خزانہ شمار ہونے لگا

یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی

لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو

میرا عشق تو خیر مری محرومی کا پروردہ تھا

کیا معلوم تھا وہ بھی دے گا میرا اتنا ٹوٹ کے ساتھ

یہ لوگ جا کے کٹی بوگیوں میں بیٹھ گئے

سمے کو ریل کی پٹری کے ساتھ چلنے دیا

ہمارے ظاہری احوال پر نہ جا ہم لوگ

قیام اپنے خد و خال میں نہیں کرتے

ہم اپنی نیکی سمجھتے تو ہیں تجھے لیکن

شمار نامۂ اعمال میں نہیں کرتے

کسی بدن کی سیاحت نڈھال کرتی ہے

کسی کے ہاتھ کا تکیہ تھکان کھینچتا ہے

جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی

دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا

خطوں کو کھولتی دیمک کا شکریہ ورنہ

تڑپ رہی تھی لفافوں میں بے زبانی پڑی

ازالہ ہو گیا تاخیر سے نکلنے کا

گزر گئی ہے سفر میں مرے قیام کی شام

منظر شام غریباں ہے دم رخصت خواب

تعزیے کی طرح اٹھا ہے کوئی بستر سے

اس سے ہم پوچھ تھوڑی سکتے ہیں

اس کی مرضی جہاں رکھے جس کو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے