Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Moin Ahsan Jazbi's Photo'

معین احسن جذبی

1912 - 2005 | علی گڑہ, انڈیا

ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں۔ فیض احمد فیض کے ہم عصر۔ اپنی غزل’مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں۔۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور، جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی ہے

ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں۔ فیض احمد فیض کے ہم عصر۔ اپنی غزل’مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں۔۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور، جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی ہے

معین احسن جذبی کے اشعار

7.8K
Favorite

باعتبار

اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں

منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا

یا اشکوں کا رونا تھا مجھے یا اکثر روتا رہتا ہوں

یا ایک بھی گوہر پاس نہ تھا یا لاکھوں گوہر ٹوٹ گئے

تری رسوائی کا ہے ڈر ورنہ

دل کے جذبات تو محدود نہیں

تو اور غم الفت جذبیؔ مجھ کو تو یقیں آئے نہ کبھی

جس قلب پہ ٹوٹے ہوں پتھر اس قلب میں نشتر ٹوٹ گئے

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے

جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں

اشکوں کی زباں میں کہتے ہیں آہوں میں اشارا کرتے ہیں

جب محبت کا نام سنتا ہوں

ہائے کتنا ملال ہوتا ہے

ملے مجھ کو غم سے فرصت تو سناؤں وہ فسانہ

کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرت شبانہ

ہزار بار کیا عزم ترک نظارہ

ہزار بار مگر دیکھنا پڑا مجھ کو

یوں بڑھی ساعت بہ ساعت لذت درد فراق

رفتہ رفتہ میں نے خود کو دشمن جاں کر دیا

رستے ہوئے زخموں کا ہو کچھ اور مداوا

یہ حرف تسلی کوئی مرہم تو نہیں ہے

یہی زندگی مصیبت یہی زندگی مسرت

یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ

ابھی سموم نے مانی کہاں نسیم سے ہار

ابھی تو معرکہ ہائے چمن کچھ اور بھی ہیں

اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے

کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں

کبھی درد کی تمنا کبھی کوشش مداوا

کبھی بجلیوں کی خواہش کبھی فکر آشیانہ

کیا ماتم ان امیدوں کا جو آتے ہی دل میں خاک ہوئیں

کیا روئے فلک ان تاروں پر دم بھر جو چمک کر ٹوٹ گئے

اک پیاس بھرے دل پر نہ ہوئی تاثیر تمہاری نظروں کی

اک موم کے بے بس ٹکڑے پر یہ نازک خنجر ٹوٹ گئے

جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا

کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا

نہ آئے موت خدایا تباہ حالی میں

یہ نام ہوگا غم روزگار سہ نہ سکا

ضبط غم بے سبب نہیں جذبیؔ

خلش دل بڑھا رہا ہوں میں

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی

اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

مختصر یہ ہے ہماری داستان زندگی

اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے

میری ہی نظر کی مستی سے سب شیشہ و ساغر رقصاں تھے

میری ہی نظر کی گرمی سے سب شیشہ و ساغر ٹوٹ گئے

جب تجھ کو تمنا میری تھی تب مجھ کو تمنا تیری تھی

اب تجھ کو تمنا غیر کی ہے تو تیری تمنا کون کرے

مسکرا کر ڈال دی رخ پر نقاب

مل گیا جو کچھ کہ ملنا تھا جواب

میری عرض شوق بے معنی ہے ان کے واسطے

ان کی خاموشی بھی اک پیغام ہے میرے لیے

دل ناکام تھک کے بیٹھ گیا

جب نظر آئی منزل مقصود

اس نے اس طرح محبت کی نگاہیں ڈالیں

ہم سے دنیا کا کوئی راز چھپایا نہ گیا

ہمیں ہیں سوز ہمیں ساز ہیں ہمیں نغمہ

ذرا سنبھل کے سر بزم چھیڑنا ہم کو

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے

یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے