ثاقب لکھنوی کے اشعار
آپ اٹھ رہے ہیں کیوں مرے آزار دیکھ کر
دل ڈوبتے ہیں حالت بیمار دیکھ کر
بلا سے ہو پامال سارا زمانہ
نہ آئے تمہیں پاؤں رکھنا سنبھل کر
اپنے دل بے تاب سے میں خود ہوں پریشاں
کیا دوں تمہیں الزام میں کچھ سوچ رہا ہوں
چل اے ہم دم ذرا ساز طرب کی چھیڑ بھی سن لیں
اگر دل بیٹھ جائے گا تو اٹھ آئیں گے محفل سے
اس کے سننے کے لئے جمع ہوا ہے محشر
رہ گیا تھا جو فسانہ مری رسوائی کا
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بوئے گل پھولوں میں رہتی تھی مگر رہ نہ سکی
میں تو کانٹوں میں رہا اور پریشاں نہ ہوا
مشکل عشق میں لازم ہے تحمل ثاقبؔ
بات بگڑی ہوئی بنتی نہیں گھبرانے سے
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی مگر
خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے چمن والو چمن میں یوں گزارا چاہئے
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
کس نظر سے آپ نے دیکھا دل مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے
آدھی سے زیادہ شب غم کاٹ چکا ہوں
اب بھی اگر آ جاؤ تو یہ رات بڑی ہے
سننے والے رو دئیے سن کر مریض غم کا حال
دیکھنے والے ترس کھا کر دعا دینے لگے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سونے والوں کو کیا خبر اے ہجر
کیا ہوا ایک شب میں کیا نہ ہوا
جس شخص کے جیتے جی پوچھا نہ گیا ثاقبؔ
اس شخص کے مرنے پر اٹھے ہیں قلم کتنے
دیدۂ دوست تری چشم نمائی کی قسم
میں تو سمجھا تھا کہ در کھل گیا مے خانے کا
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ