کسان پر شعر
شعر وادب کے سماجی سروکار بھی بہت واضح رہے ہیں اور شاعروں نے ابتدا ہی سے اپنے آس پاس کے مسائل کو شاعری کا حصہ بنایا ہے البتہ ایک دور ایسا آیا جب شاعری کو سماجی انقلاب کے ایک ذریعے کے طور پر اختیار کیا گیا اور سماج کے نچلے، گرے پڑے اور کسان طبقے کے مسائل کا اظہار شاعری کا بنیادی موضوع بن گیا ۔آپ ان شعروں میں دیکھیں گے کہ کسان طبقہ زندگی کرنے کے عمل میں کس کرب اور دکھ سے گزرتا ہے اور اس کی سماجی حثیت کیا ہے ۔ مزدوروں پر کی جانے والی شاعری کی اور بھی کئی جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو
پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے
اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا
بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں
بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے
چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے
-
موضوع: مزدور
بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں
محنت کر کے ہم تو آخر بھوکے بھی سو جائیں گے
یا مولا تو برکت رکھنا بچوں کی گڑ دھانی میں
-
موضوع: مزدور