عدیل زیدی کے اشعار
دے حوصلے کی داد کے ہم تیرے غم میں آج
بیٹھے ہیں محفلوں کو سجائے ترے بغیر
میں اس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا
عدیلؔ ماں کی جگہ کوئی ہو نہیں سکتا
ہر طرف اپنے ہی اپنے ہائے تنہائی نہ پوچھ
کس قدر کھلتی ہے اکثر ہم کو بینائی نہ پوچھ
دل کی دھڑکن کو سنا غور سے کل رات عدیلؔ
جس کو میں ڈھونڈھتا رہتا ہوں بسا ہے مجھ میں
کہاں کے ماہر و کامل ہو تم ہنر میں عدیلؔ
تمہارے کام تو پروردگار کرتا ہے
تجھ سے جدا ہوئے تو یہ ہو جائیں گے جدا
باقی کہاں رہیں گے یہ سائے ترے بغیر
آزادیوں کے شوق و ہوس نے ہمیں عدیلؔ
اک اجنبی زمین کا قیدی بنا دیا
احسان رب محبتیں اتنی ملیں عدیلؔ
اس عمر مختصر میں نہ لوٹا سکیں گے ہم
تیرے ہوتے تو بیاباں بھی تھے گلشن سارے
تو نہیں ہے تو یہ دنیا ہے بیاباں جاناں
جب اپنی سر زمین نے مجھ کو نہ دی پناہ
انجان وادیوں میں اترنا پڑا مجھے
-
موضوع : ہجرت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تیری جانب آ رہا ہوں روح کی تسکیں کو میں
حسرتیں دل کی میں دنیا میں نکال آیا بہت
رسم و رواج چھوڑ کے سب آ گئے یہاں
رکھی ہوئی ہیں طاق میں اب غیرتیں تمام
مرا دل ٹوٹ جانے پر میاں حیرت بھلا کیسی
اگر رستہ بدل جائے ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
اسے شاعری نہ جانو یہ ہے میری آپ بیتی
میں نے لکھ دیا ہے دل کا سبھی حال چلتے چلتے
جس کا ساکن ہے مری ذات میں اب تک زندہ
پھول اس قبر پہ جا کر میں چڑھاؤں کیسے
-
موضوع : یاد رفتگاں
دے حوصلے کی داد کہ ہم تیرے غم میں آج
بیٹھے ہیں محفلوں کو سجائے ترے بغیر
مجھے تو لگتا ہے جیسے یہ کائنات تمام
ہے بازگشت یقیناً صدا کسی کی نہیں
مرا دل ٹوٹ جانے پر میاں حیرت بھلا کیسی
اگر رستہ بدل جائے ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
تو مجھ سے دور چلی جائے عین ممکن ہے
مگر وہ عکس جو میری نظر میں رہتا ہے
رسم و رواج چھوڑ کے سب آ گئے یہاں
رکھی ہوئی ہیں طاق میں اب غیرتیں تمام
تجھ سے جدا ہوئے تو یہ ہو جائیں گے جدا
باقی کہاں رہیں گے یہ سائے ترے بغیر
وائے قسمت سبب اس کا بھی یہ وحشت ٹھہری
در و دیوار میں رہ کر بھی میں بے گھر نکلا