احمد عطا کے اشعار
ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں
اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر
یہ جو راتوں کو مجھے خواب نہیں آتے عطاؔ
اس کا مطلب ہے مرا یار خفا ہے مجھ سے
زندگی خواب ہے اور خواب بھی ایسا کہ میاں
سوچتے رہیے کہ اس خواب کی تعبیر ہے کیا
سڑک پہ بیٹھ گئے دیکھتے ہوئے دنیا
اور ایسے ترک ہوئی ایک خودکشی ہم سے
-
موضوع : خودکشی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نارسائی نے عجب طور سکھائے ہیں عطاؔ
یعنی بھولے بھی نہیں تم کو پکارا بھی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لوگ ہنستے ہیں ہمیں دیکھ کے تنہا تنہا
آؤ بیٹھیں کہیں اور ان پہ ہنسیں ہم اور تم
کسی کو خواب میں اکثر پکارتے ہیں ہم
عطاؔ اسی لیے سوتے میں ہونٹ ہلتے ہیں
ہم آج ہنستے ہوئے کچھ الگ دکھائی دیے
بہ وقت گریہ ہم ایسے تھے، سارے جیسے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں تیری روح میں اترا ہوا ملوں گا تجھے
اور اس طرح کہ تجھے کچھ خبر نہیں ہونی
کسی بزرگ کے بوسے کی اک نشانی ہے
ہمارے ماتھے پہ تھوڑی سی روشنی ہے نا
ویسا ہی خراب شخص ہوں میں
جیسا کوئی چھوڑ کر گیا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہماری عمر سے بڑھ کر یہ بوجھ ڈالا گیا
سو ہم بڑوں سے بزرگوں کی طرح ملتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہنستے ہنستے ہو گیا برباد میں
خوش دلی ایسی بھی ہوتی ہے بھلا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آج دیکھا ہے اسے ایسی محبت سے عطاؔ
وہ یہی بھول گیا اس کو کہیں جانا تھا
یہ ترا ہجر عطا درد عطا کرب عطا
اب عطاؔ کیسے جیے تیری عطاؤں کے بغیر
تعبیر بتائی جا چکی ہے
اب آنکھ کو خواب دیکھنا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی گماں ہوں کوئی یقیں ہوں کہ میں نہیں ہوں
میں ڈھونڈھتا ہوں کہ میں کہیں ہوں کہ میں نہیں ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس کا بدن ہے راگ سا راگ بھی ایک آگ سا
آگ کا مس تباہ کن راگ کا رس تباہ کن
میں اس کی آنکھوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتا
افق سے تا بہ افق اک جہاں سمجھ لیجے
کیا ہوئے لوگ پرانے جنہیں دیکھا بھی نہیں
اے زمانے ہمیں تاخیر ہوئی آنے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب یہاں کون نکالے گا بھلا دودھ کی نہر
عشق کرتا ہے تو جیسا بھی ہے اچھا ہے میاں
ہم آستان خدائے سخن پہ بیٹھے تھے
سو کچھ سلیقے سے اب زندگی تباہ کریں
یہ چادر ایک علامت بنی ہوئی تھی یہاں
دراصل غم کا لبادہ بہت ضروری تھا
میں تو مٹی ہو رہا تھا عشق میں لیکن عطاؔ
آ گئی مجھ میں کہیں سے بے دماغی میرؔ کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی ایسا تو ترے بعد نہیں رہنا تھا
حالت ہجر کو افتاد نہیں رہنا تھا
باغ ہوس میں کچھ نہیں دل ہے تو خوش نما ہے دل
آگ لگائے گی طلب ہوگا یہ خس تباہ کن