امت گوسوامی کے اشعار
میں نے چاہا ہے جسے یوں تو مکمل ہے مگر
اک کمی ہے کہ اسے اردو نہیں آتی ہے
تم کو ہاتھوں کی لکیروں میں نہیں لکھ پایا
اس لئے غزلوں میں لکھ کر ہی تلافی کر لی
اب وہ نہیں ہے پھر بھی دفتر سے سیدھا گھر آتا ہوں
ڈر لگتا ہے دیر ہوئی تو ماں مجھ کو پھر ڈانٹے گی
دو ایک روز کے فاقے تو کتنی بار ہوئے
پر اب کے وصل کا یہ قحط جان لیوا ہے
یہ بادل یہ دھندھلکے یہ پھواریں اور یہ تنہائی
یہ موسم تو تمہارے ساتھ میں ہونے کا موسم ہے
ظاہراً تصویر میں لب پر ہنسی تو ہے مگر
اے مصور تجھ کو تو معلوم ہے اندر کا دکھ
مجھے نہ ڈر ہے قیامت کا اب نہ خوف اجل
میں درد ترک ملاقات سہ کے آیا ہوں
کسی کا نام تیرے نام سے منسوب ہے ورنہ
میں تیرے نام کا ٹیٹو کلائی میں بنا لیتا
صبح کی چائے سے پھر آئیں یاد
تیرے پہلو میں چائے کی شامیں
اب اس کے لہجے میں اخبار کی سی خشکی ہے
ہم اب بھی ساتھ میں ہوتے تو وہ غزل ہوتی
ہو دور پہ یوں مجھ میں سمائی ہو کہ جیسے
اشک آنکھوں سے نکلیں بھی تو نم رہتی ہیں آنکھیں
ہے تیرگی سے جنگ مقابل اور اپنے ساتھ
جگنو کی صف ہے جشن چراغاں نہیں تو کیا