Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Azhar Faragh's Photo'

پاکستان کی نئی نسل کے مشہور شاعر، ’میں کسی داستان سے ابھروں گا‘ کے نام سے شعری مجموعہ شائع ہوا

پاکستان کی نئی نسل کے مشہور شاعر، ’میں کسی داستان سے ابھروں گا‘ کے نام سے شعری مجموعہ شائع ہوا

اظہر فراغ کے اشعار

7.5K
Favorite

باعتبار

یہ لوگ جا کے کٹی بوگیوں میں بیٹھ گئے

سمے کو ریل کی پٹری کے ساتھ چلنے دیا

ہمارے ظاہری احوال پر نہ جا ہم لوگ

قیام اپنے خد و خال میں نہیں کرتے

ہم اپنی نیکی سمجھتے تو ہیں تجھے لیکن

شمار نامۂ اعمال میں نہیں کرتے

خطوں کو کھولتی دیمک کا شکریہ ورنہ

تڑپ رہی تھی لفافوں میں بے زبانی پڑی

ازالہ ہو گیا تاخیر سے نکلنے کا

گزر گئی ہے سفر میں مرے قیام کی شام

منظر شام غریباں ہے دم رخصت خواب

تعزیے کی طرح اٹھا ہے کوئی بستر سے

اس سے ہم پوچھ تھوڑی سکتے ہیں

اس کی مرضی جہاں رکھے جس کو

یہ خموشی مری خموشی ہے

اس کا مطلب مکالمہ لیا جائے

دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا

تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

گرتے پیڑوں کی زد میں ہیں ہم لوگ

کیا خبر راستہ کھلے کب تک

بہت سے سانپ تھے اس غار کے دہانے پر

دل اس لئے بھی خزانہ شمار ہونے لگا

تیری شرطوں پہ ہی کرنا ہے اگر تجھ کو قبول

یہ سہولت تو مجھے سارا جہاں دیتا ہے

خود پر حرام سمجھا ثمر کے حصول کو

جب تک شجر کو چھاؤں کے قابل نہیں کیا

ٹھہرنا بھی مرا جانا شمار ہونے لگا

پڑے پڑے میں پرانا شمار ہونے لگا

بتا رہا ہے جھٹکنا تری کلائی کا

ذرا بھی رنج نہیں ہے تجھے جدائی کا

ویسے تو ایمان ہے میرا ان بانہوں کی گنجائش پر

دیکھنا یہ ہے اس کشتی میں کتنا دریا آ جاتا ہے

اسے کہو جو بلاتا ہے گہرے پانی میں

کنارے سے بندھی کشتی کا مسئلہ سمجھے

ایسی غربت کو خدا غارت کرے

پھول بھجوانے کی گنجائش نہ ہو

ہماری معذرت اے غم کہ مسکرا رہے ہیں

ہم اپنا ہاتھ تری پشت سے ہٹا رہے ہیں

مل گیا تو مجھے میرا نہیں رہنے دے گا

وہ سمندر مجھے قطرہ نہیں رہنے دے گا

یہ کچے سیب چبانے میں اتنے سہل نہیں

ہمارا صبر نہ کرنا بھی ایک ہمت ہے

گیلے بالوں کو سنبھال اور نکل جنگل سے

اس سے پہلے کہ ترے پاؤں یہ جھرنا پڑ جائے

کچھ نہیں دے رہا سجھائی ہمیں

اس قدر روشنی کا کیا کیجے

محسوس کر لیا تھا بھنور کی تھکان کو

یونہی تو خود کو رقص پہ مائل نہیں کیا

دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے

کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا

اچھے خاصے لوگوں پر بھی وقت اک ایسا آ جاتا ہے

اور کسی پر ہنستے ہنستے خود پر رونا آ جاتا ہے

وہ دستیاب ہمیں اس لئے نہیں ہوتا

ہم استفادہ نہیں دیکھ بھال کرتے ہیں

ہائے وہ بھیگا ریشمی پیکر

تولیا کھردرا لگے جس کو

میری نمو ہے تیرے تغافل سے وابستہ

کم بارش بھی مجھ کو کافی ہو سکتی ہے

یہ اعتماد بھی میرا دیا ہوا ہے تمہیں

جو میرے مشورے بیکار جانے لگ گئے ہیں

میں جانتا ہوں مجھے مجھ سے مانگنے والے

پرائی چیز کا جو لوگ حال کرتے ہیں

دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں

بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں

بہت غنیمت ہیں ہم سے ملنے کبھی کبھی کے یہ آنے والے

وگرنہ اپنا تو شہر بھر میں مکان تالے سے جانا جائے

بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب تخت

جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے

بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے

ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے

کسی بدن کی سیاحت نڈھال کرتی ہے

کسی کے ہاتھ کا تکیہ تھکان کھینچتا ہے

تجھ سے کچھ اور تعلق بھی ضروری ہے مرا

یہ محبت تو کسی وقت بھی مر سکتی ہے

تیز آندھی میں یہ بھی کافی ہے

پیڑ تصویر میں بچا لیا جائے

ایک ہونے کی قسمیں کھائی جائیں

اور آخر میں کچھ دیا لیا جائے

جب تک ماتھا چوم کے رخصت کرنے والی زندہ تھی

دروازے کے باہر تک بھی منہ میں لقمہ ہوتا تھا

میں یہ چاہتا ہوں کہ عمر بھر رہے تشنگی مرے عشق میں

کوئی جستجو رہے درمیاں ترے ساتھ بھی ترے بعد بھی

نکل گیا تھا وہ حسین اپنی زلف باندھ کر

ہوا کی باقیات کو سمیٹتے رہے ہیں ہم

میرا عشق تو خیر مری محرومی کا پروردہ تھا

کیا معلوم تھا وہ بھی دے گا میرا اتنا ٹوٹ کے ساتھ

آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں

ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں

یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ

صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں

ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں

ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں

وصل کے ایک ہی جھونکے میں

کان سے بالے اتر گئے

یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی

لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے