Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بدر منیر کے اشعار

1.3K
Favorite

باعتبار

کچرے سے اٹھائی جو کسی طفل نے روٹی

پھر حلق سے میرے کوئی لقمہ نہیں اترا

جب وصل کا آئے گا ترے ساتھ صنم دن

اس دن کو حقیقت میں کہوں گا میں جنم دن

اس سے بڑھ کر اور کیا ہم پر ستم ہوگا منیرؔ

مشورہ مانگا ہے اس نے فیصلہ کرنے کے بعد

کنج حیرت سے چلے دشت زیاں تک لائے

کون لا سکتا ہے ہم دل کو جہاں تک لائے

کوئی بھی سر میں نہیں ہے منیرؔ کیا کیجے

یہ زندگی کا ترانہ ریاض مانگتا ہے

پڑ جاتے ہیں کتنے چھالے ہاتھوں میں

آتے ہیں پھر چند نوالے ہاتھوں میں

بوڑھے کمزور والدین کے ساتھ

جی رہا ہوں میں کتنے چین کے ساتھ

چراغ اندر کی سازشوں سے بجھے ہوئے ہیں

اور اس کا الزام بھی ہوا پر چلا گیا ہے

کیا خبر کون سا رستہ تری جانب نکلے

بے ارادہ بھی کئی بار سفر کرتے ہیں

میں آج تجھ سے ملاقات کرنے آیا ہوں

نئی غزل کی شروعات کرنے آیا ہوں

سپہ سالار کے جب ہاتھ کانپیں تو سپاہی بھی

زیادہ دیر پھر میدان میں ٹھہرا نہیں کرتے

مسکرا کر اگر وہ دیکھے تو

آئنے پر نشان پڑ جائے

زمیں پہ صرف اتارا نہیں منیرؔ اس نے

پھر اس کے بعد ہمارا خیال بھی رکھا

ایک امید کے سہارے پر

کتنی تاخیر دیکھ لیتے ہیں

کرنی پڑ جائے وضاحت پہ وضاحت لیکن

ہم تری بات کی تردید نہیں کر سکتے

جیون ہے سڑک اور کنارے پہ کھڑے ہیں

لگتا ہے کہ مدت سے اشارے پہ کھڑے ہیں

طے ہو چکی ہے اس سے جدائی مگر منیرؔ

تو اس کے ساتھ لمحۂ انکار تک تو چل

جس منظر کا حصہ تیری ذات نہیں

میری نظر میں اس کی کوئی اوقات نہیں

بے چہرہ انسانوں کی اس بستی میں

اچھا ہے آئینے توڑ دئے جائیں

لڑ رہا ہوں میں اکیلا کارزار ہست میں

کر فراہم تو بھی ظالم اپنے ہونے کا جواز

سمجھ میں آتا نہیں یہ کیسی نمو ہے مجھ میں

وہ میری مٹی میں کچھ ملا کر چلا گیا ہے

گو حرف و اشک دونوں تھے سامان گفتگو

پھر بھی ہماری بات میں ابہام رہ گیا

کہاں سے ہم اپنی گردشوں کا جواز ڈھونڈیں

ہمارا محور زمیں کے محور سے مختلف ہے

کب سے پہنچ گیا ہوں میں اس شخص کے قریب

کہتی ہے پھر بھی اس کی نظر راستے میں ہوں

اور کیا مفہوم ہوگا خود فریبی کے سوا

تشنگی جلتے ہوئے سورج پہ گر ظاہر کریں

تجھ کو خود سے منہا کرتے

نا ممکن تھا ایسا کرتے

تری صورت میں رہائی مل گئی

آنکھ کتنے منظروں میں قید تھی

بن گئے انسان اپنی ذات میں جنگل منیرؔ

بستیوں سے اڑ گئی ہے بوئے آدم زاد تک

یہ آئینوں کے ہیں یا نقص میرے

بگڑتے جا رہے ہیں عکس میرے

یہ تو اہل جنوں کا مسکن ہے

آپ کیسے جناب صحرا میں

تیری صورت میں رہائی مل گئی

آنکھ کتنے منظروں میں قید تھی

اس وقت سے بچا مجھے اے رب کائنات

حب وطن ہو دل میں وطن کاٹنے لگے

یہ کس طرح کی زمیں پہ ہم نے بنائے شہر مراد رکھی

یہاں پہ کوئی گلاب موسم اتر بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

Recitation

بولیے