Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Chakbast Braj Narayan's Photo'

چکبست برج نرائن

1882 - 1926 | لکھنؤ, انڈیا

ممتاز قبل از جدید شاعر۔ راماین پر اپنی نظم کے لئے مشہور۔ ضرب المثل شعر زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب۔ موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشان ہونا، کے خالق

ممتاز قبل از جدید شاعر۔ راماین پر اپنی نظم کے لئے مشہور۔ ضرب المثل شعر زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب۔ موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشان ہونا، کے خالق

چکبست برج نرائن کے اشعار

11.9K
Favorite

باعتبار

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

تشریح

چکبست کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:

ہو گئے مضمحل قویٰ غالبؔ

اب عناصر میں اعتدال کہاں

انسانی جسم کچھ عناصر کی ترتیب سے تشکیل پاتا ہے۔ حکماء کی نظر میں وہ عناصر آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ ان عناصر میں جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو انسانی جسم اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔یعنی غالب کی زبان میں جب عناصر میں اعتدال نہیں رہتا تو قویٰ یعنی مختلف قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ چکبست اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب تک انسانی جسم میں عناصر ترتیب کے ساتھ رہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب یہ عناصر پریشان ہوجاتے ہیں یعنی ان میں توزن اور اعتدال نہیں رہتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔

شفق سوپوری

اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا

نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا

ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا

وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں

اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی

اس ایک مشت خاک کو غم دو جہاں کے ہیں

وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے

مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں

گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف

سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے

مزا ہے عہد جوانی میں سر پٹکنے کا

لہو میں پھر یہ روانی رہے رہے نہ رہے

نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے

بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے

ایک ساغر بھی عنایت نہ ہوا یاد رہے

ساقیا جاتے ہیں محفل تری آباد رہے

خدا نے علم بخشا ہے ادب احباب کرتے ہیں

یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا

جو تو کہے تو شکایت کا ذکر کم کر دیں

مگر یقیں ترے وعدوں پہ لا نہیں سکتے

اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں

مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا

منزل عبرت ہے دنیا اہل دنیا شاد ہیں

ایسی دلجمعی سے ہوتی ہے پریشانی مجھے

زبان حال سے یہ لکھنؤ کی خاک کہتی ہے

مٹایا گردش افلاک نے جاہ و حشم میرا

یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں

شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے

کیا ہے فاش پردہ کفر و دیں کا اس قدر میں نے

کہ دشمن ہے برہمن اور عدو شیخ حرم میرا

ہے مرا ضبط جنوں جوش جنوں سے بڑھ کر

ننگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا

لکھنؤ میں پھر ہوئی آراستہ بزم سخن

بعد مدت پھر ہوا ذوق غزل خوانی مجھے

چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے

اسے ہوا کے فرشتے بجھا نہیں سکتے

عزیزان وطن کو غنچہ و برگ و ثمر جانا

خدا کو باغباں اور قوم کو ہم نے شجر جانا

درد دل پاس وفا جذبۂ ایماں ہونا

آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

Recitation

Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

Register for free
بولیے