Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fuzail Jafri's Photo'

فضیل جعفری

1936 - 2018 | ممبئی, انڈیا

ممتاز جدید نقاد

ممتاز جدید نقاد

فضیل جعفری کے اشعار

5.8K
Favorite

باعتبار

بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی

قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو

تعلقات کا تنقید سے ہے یارانہ

کسی کا ذکر کرے کون احتساب کے ساتھ

یہ سچ ہے ہم کو بھی کھونے پڑے کچھ خواب کچھ رشتے

خوشی اس کی ہے لیکن حلقۂ شر سے نکل آئے

چمکتے چاند سے چہروں کے منظر سے نکل آئے

خدا حافظ کہا بوسہ لیا گھر سے نکل آئے

احساس جرم جان کا دشمن ہے جعفریؔ

ہے جسم تار تار سزا کے بغیر بھی

جو بھر بھی جائیں دل کے زخم دل ویسا نہیں رہتا

کچھ ایسے چاک ہوتے ہیں جو جڑ کر بھی نہیں سلتے

کس درد سے روشن ہے سیہ خانۂ ہستی

سورج نظر آتا ہے ہمیں رات گئے بھی

دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے

یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے

آتش فشاں زباں ہی نہیں تھی بدن بھی تھا

دریا جو منجمد ہے کبھی موجزن بھی تھا

گھر سے باہر نہیں نکلا جاتا

روشنی یاد دلاتی ہے تری

آٹھوں پہر لہو میں نہایا کرے کوئی

یوں بھی نہ اپنے درد کو دریا کرے کوئی

مزاج الگ سہی ہم دونوں کیوں الگ ہوں کہ ہیں

سراب و آب میں پوشیدہ قربتیں کیا کیا

اخلاق و شرافت کا اندھیرا ہے وہ گھر میں

جلتے نہیں معصوم گناہوں کے دیے بھی

میں اور مری ذات اگر ایک ہی شے ہیں

پھر برسوں سے دونوں میں صف آرائی سی کیوں ہے

کوئی منزل آخری منزل نہیں ہوتی فضیلؔ

زندگی بھی ہے مثال موج دریا راہ رو

ہر آدمی میں تھے دو چار آدمی پنہاں

کسی کو ڈھونڈنے نکلا کوئی ملا مجھ کو

دل یوں تو گاہ گاہ سلگتا ہے آج بھی

منظر مگر وہ رقص شرر کا نہیں رہا

ترے بدن میں مرے خواب مسکراتے ہیں

دکھا کبھی مرے خوابوں کا آئینہ مجھ کو

ضد میں دنیا کی بہرحال ملا کرتے تھے

ورنہ ہم دونوں میں ایسی کوئی الفت بھی نہ تھی

منزلیں سمتیں بدلتی جا رہی ہیں روز و شب

اس بھری دنیا میں ہے انسان تنہا راہ رو

بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی

آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی

اک خوف سا درختوں پہ طاری تھا رات بھر

پتے لرز رہے تھے ہوا کے بغیر بھی

زہر میٹھا ہو تو پینے میں مزا آتا ہے

بات سچ کہیے مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے

Recitation

بولیے