Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Habeeb Ahmad Siddiqui's Photo'

حبیب احمد صدیقی

1908

حبیب احمد صدیقی کے اشعار

2.5K
Favorite

باعتبار

میرے لئے جینے کا سہارا ہے ابھی تک

وہ عہد تمنا کہ تمہیں یاد نہ ہوگا

وہ بھلا کیسے بتائے کہ غم ہجر ہے کیا

جس کو آغوش محبت کبھی حاصل نہ ہوا

اظہار غم کیا تھا بہ امید التفات

کیا پوچھتے ہو کتنی ندامت ہے آج تک

مجھ کو احساس رنگ و بو نہ ہوا

یوں بھی اکثر بہار آئی ہے

ہزاروں تمناؤں کے خوں سے ہم نے

خریدی ہے اک تہمت پارسائی

گلوں سے اتنی بھی وابستگی نہیں اچھی

رہے خیال کہ عہد خزاں بھی آتا ہے

اب بہت دور نہیں منزل دوست

کعبے سے چند قدم اور سہی

رعنائی بہار پہ تھے سب فریفتہ

افسوس کوئی محرم راز خزاں نہ تھا

آپ شرمندہ جفاؤں پہ نہ ہوں

جن پہ گزری تھی وہی بھول گئے

تسلیم ہے سعادت ہوش و خرد مگر

جینے کے واسطے دل ناداں بھی چاہئے

کبھی بے کلی کبھی بے دلی ہے عجیب عشق کی زندگی

کبھی غنچہ پہ جاں فدا کبھی گلستاں سے غرض نہیں

ہے نوید بہار ہر لب پر

کم نصیبوں کو اعتبار نہیں

موت کے بعد بھی مرنے پہ نہ راضی ہونا

یہی احساس تو سرمایۂ دیں ہوتا ہے

ایک کعبہ کے صنم توڑے تو کیا

نسل و ملت کے صنم خانے بہت

ہائے بیداد محبت کہ یہ ایں بربادی

ہم کو احساس زیاں بھی تو نہیں ہوتا ہے

جو کام کرنے ہیں اس میں نہ چاہئے تاخیر

کبھی پیام اجل ناگہاں بھی آتا ہے

اپنے دامن میں ایک تار نہیں

اور ساری بہار باقی ہے

کتنے صنم خود ہم نے تراشے

ذوق پرستش اللہ اکبر

ہر قدم پر ہے احتساب عمل

اک قیامت پہ انحصار نہیں

یا دیر ہے یا کعبہ ہے یا کوئے بتاں ہے

اے عشق تری فطرت آزاد کہاں ہے

یہ مہر و ماہ و کواکب کی بزم لا محدود

صلائے دعوت پرواز ہے بشر کے لئے

عافیت کی امید کیا کہ ابھی

دل امیدوار باقی ہے

بصد ادائے دلبری ہے التجائے مے کشی

یہ ہوش اب کسے کہ مے حرام یا حلال ہے

جس کے واسطے برسوں سعئ رائیگاں کی ہے

اب اسے بھلانے کی سعئ رائیگاں کر لیں

جب کوئی فتنۂ ایام نہیں ہوتا ہے

زندگی کا بڑی مشکل سے یقیں ہوتا ہے

آشنا جب تک نہ تھا اس کی نگاہ لطف سے

واردات قلب کو حسن بیاں سمجھا تھا میں

فیض ایام بہار اہل قفس کیا جانیں

چند تنکے تھے نشیمن کے جو ہم تک پہنچے

نگاہ لطف کو الفت شعار سمجھے تھے

ذرا سے خندۂ گل کو بہار سمجھتے تھے

وہ کرم ہو کہ ستم ایک تعلق ہے ضرور

کوئی تو درد محبت کا امیں ہوتا ہے

چشم صیاد پہ ہر لحظہ نظر رکھتا ہے

ہائے وہ صید جو کہنے کو تہ دام نہیں

بتائے کون کسی کو نشان منزل زیست

ابھی تو حجت باہم ہے رہ گزر کے لئے

تگ و تاز پیہم ہے میراث آدم

مرے منتظر کچھ جہاں اور بھی ہیں

اک فصل گل کو لے کے تہی دست کیا کریں

آئی ہے فصل گل تو گریباں بھی چاہئے

اب تو جو شے ہے مری نظروں میں ہے ناپائیدار

یاد آیا میں کہ غم کو جاوداں سمجھا تھا میں

نہ ہو کچھ اور تو وہ دل عطا ہو

بہل جائے جو سعیٔ رائیگاں سے

Recitation

بولیے