حبیب احمد صدیقی کے اشعار
میرے لئے جینے کا سہارا ہے ابھی تک
وہ عہد تمنا کہ تمہیں یاد نہ ہوگا
وہ بھلا کیسے بتائے کہ غم ہجر ہے کیا
جس کو آغوش محبت کبھی حاصل نہ ہوا
اظہار غم کیا تھا بہ امید التفات
کیا پوچھتے ہو کتنی ندامت ہے آج تک
ہزاروں تمناؤں کے خوں سے ہم نے
خریدی ہے اک تہمت پارسائی
مجھ کو احساس رنگ و بو نہ ہوا
یوں بھی اکثر بہار آئی ہے
گلوں سے اتنی بھی وابستگی نہیں اچھی
رہے خیال کہ عہد خزاں بھی آتا ہے
آپ شرمندہ جفاؤں پہ نہ ہوں
جن پہ گزری تھی وہی بھول گئے
تسلیم ہے سعادت ہوش و خرد مگر
جینے کے واسطے دل ناداں بھی چاہئے
کبھی بے کلی کبھی بے دلی ہے عجیب عشق کی زندگی
کبھی غنچہ پہ جاں فدا کبھی گلستاں سے غرض نہیں
رعنائی بہار پہ تھے سب فریفتہ
افسوس کوئی محرم راز خزاں نہ تھا
موت کے بعد بھی مرنے پہ نہ راضی ہونا
یہی احساس تو سرمایۂ دیں ہوتا ہے
اپنے دامن میں ایک تار نہیں
اور ساری بہار باقی ہے
ہائے بیداد محبت کہ یہ ایں بربادی
ہم کو احساس زیاں بھی تو نہیں ہوتا ہے
یا دیر ہے یا کعبہ ہے یا کوئے بتاں ہے
اے عشق تری فطرت آزاد کہاں ہے
جو کام کرنے ہیں اس میں نہ چاہئے تاخیر
کبھی پیام اجل ناگہاں بھی آتا ہے
ایک کعبہ کے صنم توڑے تو کیا
نسل و ملت کے صنم خانے بہت
جس کے واسطے برسوں سعئ رائیگاں کی ہے
اب اسے بھلانے کی سعئ رائیگاں کر لیں
بصد ادائے دلبری ہے التجائے مے کشی
یہ ہوش اب کسے کہ مے حرام یا حلال ہے
جب کوئی فتنۂ ایام نہیں ہوتا ہے
زندگی کا بڑی مشکل سے یقیں ہوتا ہے
آشنا جب تک نہ تھا اس کی نگاہ لطف سے
واردات قلب کو حسن بیاں سمجھا تھا میں
وہ کرم ہو کہ ستم ایک تعلق ہے ضرور
کوئی تو درد محبت کا امیں ہوتا ہے
فیض ایام بہار اہل قفس کیا جانیں
چند تنکے تھے نشیمن کے جو ہم تک پہنچے
نگاہ لطف کو الفت شعار سمجھے تھے
ذرا سے خندۂ گل کو بہار سمجھتے تھے
بتائے کون کسی کو نشان منزل زیست
ابھی تو حجت باہم ہے رہ گزر کے لئے
نہ ہو کچھ اور تو وہ دل عطا ہو
بہل جائے جو سعیٔ رائیگاں سے
تگ و تاز پیہم ہے میراث آدم
مرے منتظر کچھ جہاں اور بھی ہیں
یہ مہر و ماہ و کواکب کی بزم لا محدود
صلائے دعوت پرواز ہے بشر کے لئے
چشم صیاد پہ ہر لحظہ نظر رکھتا ہے
ہائے وہ صید جو کہنے کو تہ دام نہیں
اک فصل گل کو لے کے تہی دست کیا کریں
آئی ہے فصل گل تو گریباں بھی چاہئے
اب تو جو شے ہے مری نظروں میں ہے ناپائیدار
یاد آیا میں کہ غم کو جاوداں سمجھا تھا میں