حسن بریلوی کے اشعار
کس کے چہرے سے اٹھ گیا پردہ
جھلملائے چراغ محفل کے
ابر ہے گل زار ہے مے ہے خوشی کا دور ہے
آج تو ڈوبے ہوئے دل کو اچھلنے دیجئے
جان اگر ہو جان تو کیوں کر نہ ہو تجھ پر نثار
دل اگر ہو دل تری صورت پہ شیدا کیوں نہ ہو
گلشن خلد کی کیا بات ہے کیا کہنا ہے
پر ہمیں تیرے ہی کوچے میں پڑا رہنا ہے
جو خاص جلوے تھے عشاق کی نظر کے لیے
وہ عام کر دیے تم نے جہان بھر کے لیے
ایک کہہ کر جس نے سننی ہو ہزاروں باتیں
وہ کہے ان سے مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے
الفت ہو کسی کی نہ محبت ہو کسی کی
پہلو میں نہ دل ہو نہ یہ حالت ہو کسی کی
چوٹ جب دل پر لگے فریاد پیدا کیوں نہ ہو
اے ستم آرا جو ایسا ہو تو ایسا کیوں نہ ہو
او وصل میں منہ چھپانے والے
یہ بھی کوئی وقت ہے حیا کا
بولے وہ بوسہ ہائے پیہم پر
ارے کمبخت کچھ حساب بھی ہے
-
موضوع : بوسہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پوچھتے جاتے ہیں یہ ہم سب سے
مجلس وعظ میں شراب بھی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیکھ آؤ مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے ثواب بھی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمارے گھر سے جانا مسکرا کر پھر یہ فرمانا
تمہیں میری قسم دیکھو مری رفتار کیسی ہے
-
موضوع : مسکراہٹ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا کہوں کیا ہے میرے دل کی خوشی
تم چلے جاؤ گے خفا ہو کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل کو جاناں سے حسنؔ سمجھا بجھا کے لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آپ کی ضد نے مجھے اور پلائی حضرت
شیخ جی اتنی نصیحت بھی بری ہوتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عشق میں بے تابیاں ہوتی ہیں لیکن اے حسنؔ
جس قدر بے چین تم ہو اس قدر کوئی نہ ہو
-
موضوع : بے_چینی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ