Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

شیخ ظہور الدین حاتم

1699 - 1783 | دلی, انڈیا

شیخ ظہور الدین حاتم کے اشعار

10K
Favorite

باعتبار

ادا و ناز و کرشمہ جفا و جور و ستم

ادھر یہ سب ہیں ادھر ایک میری جاں تنہا

میں جاں بلب ہوں اے تقدیر تیرے ہاتھوں سے

کہ تیرے آگے مری کچھ نہ چل سکی تدبیر

رات دن یار بغل میں ہو تو گھر بہتر ہے

ورنہ اس گھر کے تو رہنے سے سفر بہتر ہے

اس قدر کی صرف تسخیر پری رویاں میں عمر

رفتہ رفتہ نام میرا اب پری خواں ہو گیا

کس طرح پہنچوں میں اپنے یار کن پنجاب میں

ہو گیا راہوں میں چشموں سے دو آبا بے طرح

اے مسلمانو بڑا کافر ہے وہ

جو نہ ہووے زلف گیراں کا مطیع

ابھی مسجد نشین طارم افلاک ہو جاوے

جو سب کچھ چھوڑ دل تیرے قدم کی خاک ہو جاوے

ہماری گفتگو سب سے جدا ہے

ہمارے سب سخن ہیں بانکپن کے

جاں بلب تھا تو عیادت کو بھی آ جاتے تھے

میں تو لو اور برا ہو گیا اچھا ہو کر

کھل گئی جس کی آنکھ مثل حباب

گھر کو اپنے خراب جانے ہے

تو نے غارت کیا گھر بیٹھے گھر اک عالم کا

خانہ آباد ہو تیرا اے مرے خانہ خراب

ہے راہ عاشقی تاریک اور باریک اور سکڑی

نہیں کچھ کام آنے کی یہاں زاہد تری لکڑی

جانے نہ پائے اس کو جہاں ہو تہاں سے لاؤ

گھر میں نہ ہو تو کوچہ و بازار دیکھنا

گلی میں اس کی نہ دیکھا کبھو کسی کو مگر

اجل گرفتہ کوئی گاہ گاہ نکلے ہے

عشق اس کا آن کر یک بارگی سب لے گیا

جان سے آرام سر سے ہوش اور چشموں سے خواب

دیکھوں ہوں تجھ کو دور سے بیٹھا ہزار کوس

عینک نہ چاہئے نہ یہاں دوربیں مجھے

نگاہیں جوڑ اور آنکھیں چرا ٹک چل کے پھر دیکھا

مرے چہرے اوپر کی شاہ خوباں نے نظر ثانی

جو جی میں آوے تو ٹک جھانک اپنے دل کی طرف

کہ اس طرف کو ادھر سے بھی راہ نکلے ہے

خم خانہ میکشوں نے کیا اس قدر تہی

قطرہ نہیں رہا ہے جو شیشے نچوڑیے

مہیا سب ہے اب اسباب ہولی

اٹھو یارو بھرو رنگوں سے جھولی

در و دیوار چمن آج ہیں خوں سے لبریز

دست گلچیں سے مبادا کوئی دل ٹوٹا ہے

حاتمؔ اس ظالم کے ابرو کو نہ چھیڑ

ہاتھ کٹ جاوے گا اے ناداں ہے تیغ

میں پیر ہو گیا ہوں اور اب تک جواں ہے درد

میرے مرید ہو جو تمہیں دوستاں ہے درد

شہر میں چرچا ہے اب تیری نگاہ تیز کا

دو کرے دل کے تئیں یہ نیمچہ انگریز کا

راہ میں غمزدۂ عشق کو کیا ٹوکو ہو

اپنی حالت میں گرفتار چلا جاتا ہے

کس طرح سے گزار کروں راہ عشق میں

کاٹے ہے اب ہر ایک قدم پر زمیں مجھے

دے کے دل اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ

ہم نے سودا کیا ہے دست بدست

عشق نے کشور دل لوٹا ہے

آ کے آباد کرو بندہ نواز

عشق کی راہ میں میں مست کی طرح

کچھ نہیں دیکھتا بلند اور پست

میرے حواس خمسہ اسے دیکھ اڑ گئے

کیوں کر ٹھہر سکیں یہ کبوتر تھے پر گرے

کئی فرہاد ہیں جویا ترے شیریں لب کے

کئی یوسف ہیں زنخدان کے چاہوں کے بیچ

سمجھتے ہم نہیں جو تم اشاروں بیچ کہتے ہو

مفصل کو تو ہم جانے ہیں یہ مجمل خدا جانے

سو بار تار تار کیا تو بھی اب تلک

ثابت وہی ہے دست و گریباں کی دوستی

یہ مسلہ شیخ سے پوچھو ہم اس جھگڑے سے فارغ ہے

کہ ڈاڑھی شہر میں کس کی بڑی اور کس کی چھوٹی ہے

ملک عدم سے دہر کے ماتم کدے کے بیچ

آیا نہ کون کون کہ رونا نہ رو گیا

مدت سے خواب میں بھی نہیں نیند کا خیال

حیرت میں ہوں یہ کس کا مجھے انتظار ہے

میرے آنسو کے پوچھنے کو میاں

تیری ہو آستیں خدا نہ کرے

کیا بڑا عیب ہے اس جامۂ عریانی میں

چاک کرنے کو کبھی اس میں گریباں نہ ہوا

طبع تیری عجب تماشا ہے

گاہ تولا ہے گاہ ماشہ ہے

ان دنوں سب کو ہوا ہے صاف گوئی کا تلاش

نام کو چرچا نہیں حاتمؔ کہیں ایہام کا

آ کر تری گلی میں قدم بوسی کے لیے

پھر آسماں کی بھول گیا راہ آفتاب

اے خرد مندو مبارک ہو تمہیں فرزانگی

ہم ہوں اور صحرا ہو اور حیرت ہو اور دیوانگی

چمن خراب کیا، ہو خزاں کا خانہ خراب

نہ گل رہا ہے نہ بلبل ہے باغباں تنہا

مظہر حق کب نظر آتا ہے ان شیخوں کے تئیں

بسکہ آئینے پر ان آہن دلوں کے زنگ ہے

ایک دن پوچھا نہ حاتمؔ کو کبھو اس نے کہ دوست

کب سے تو بیمار ہے اور کیا تجھے آزار ہے

طبیبوں کی توجہ سے مرض ہونے لگا دونا

دوا اس درد کی بتلا دل آگاہ کیا کیجے

پڑی پھرتی ہیں کئی لیلیٰ و شیریں ہر جا

پر کوئی ہائے یہاں مجنوں و فرہاد نہیں

سواد خال کے نقطے کی خوبی

جو عاشق ہے سو تل تل جانتا ہے

ہم چھنالوں کی چھوڑ دی یاری

نفس کو مار کر کیا مردا

مجلس میں رات گریۂ مستاں تھا تجھ بغیر

ساغر بھرا شراب کا چشم پر آب تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے