Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

شیخ ظہور الدین حاتم

1699 - 1783 | دلی, انڈیا

شیخ ظہور الدین حاتم کے اشعار

10.6K
Favorite

باعتبار

چاند سے تجھ کو جو دے نسبت سو بے انصاف ہے

چاند کے منہ پر ہیں چھائیں تیرا مکھڑا صاف ہے

مدت سے خواب میں بھی نہیں نیند کا خیال

حیرت میں ہوں یہ کس کا مجھے انتظار ہے

اتنا میں انتظار کیا اس کی راہ میں

جو رفتہ رفتہ دل مرا بیمار ہو گیا

کپڑے سفید دھو کے جو پہنے تو کیا ہوا

دھونا وہی جو دل کی سیاہی کو دھوئیے

تنہائی سے آتی نہیں دن رات مجھے نیند

یارب مرا ہم خواب و ہم آغوش کہاں ہے

آئی عید و دل میں نہیں کچھ ہوائے عید

اے کاش میرے پاس تو آتا بجائے عید

مدت سے آرزو ہے خدا وہ گھڑی کرے

ہم تم پئیں جو مل کے کہیں ایک جا شراب

تیرے آنے سے یو خوشی ہے دل

جوں کہ بلبل بہار کی خاطر

حاتمؔ اس زلف کی طرف مت دیکھ

جان کر کیوں بلا میں پھنستا ہے

ایسا کروں گا اب کے گریباں کو تار تار

جو پھر کسی طرح سے کسی سے رفو نہ ہو

ہم تری راہ میں جوں نقش قدم بیٹھے ہیں

تو تغافل کیے اے یار چلا جاتا ہے

ساقی مجھے خمار ستائے ہے لا شراب

مرتا ہوں تشنگی سے اے ظالم پلا شراب

خدا کے واسطے اس سے نہ بولو

نشے کی لہر میں کچھ بک رہا ہے

تری جو زلف کا آیا خیال آنکھوں میں

وہیں کھٹکنے لگا بال بال آنکھوں میں

دوستوں سے دشمنی اور دشمنوں سے دوستی

بے مروت بے وفا بے رحم یہ کیا ڈھنگ ہے

ہولی کے اب بہانے چھڑکا ہے رنگ کس نے

نام خدا تجھ اوپر اس آن عجب سماں ہے

جی اٹھوں پھر کر اگر تو ایک بوسہ دے مجھے

چوسنا لب کا ترے ہے مجھ کو جوں آب حیات

مجھے تعویذ لکھ دو خون آہو سے کہ اے سیانو

تغافل ٹوٹکا ہے اور جادو ہے نظر اس کی

سو بار تار تار کیا تو بھی اب تلک

ثابت وہی ہے دست و گریباں کی دوستی

ادا و ناز و کرشمہ جفا و جور و ستم

ادھر یہ سب ہیں ادھر ایک میری جاں تنہا

اے خزاں بھاگ جا چمن سے شتاب

ورنہ فوج بہار آوے ہے

نظر میں بند کرے ہے تو ایک عالم کو

فسوں ہے سحر ہے جادو ہے کیا ہے آنکھوں میں

تمہارے عشق میں ہم ننگ و نام بھول گئے

جہاں میں کام تھے جتنے تمام بھول گئے

وقت فرصت دے تو مل بیٹھیں کہیں باہم دو دم

ایک مدت سے دلوں میں حسرت طرفین ہے

کبھو بیمار سن کر وہ عیادت کو تو آتا تھا

ہمیں اپنے بھلے ہونے سے وہ آزار بہتر تھا

فی الحقیقت کوئی نہیں مرتا

موت حکمت کا ایک پردا ہے

میرے آنسو کے پوچھنے کو میاں

تیری ہو آستیں خدا نہ کرے

بو الہوس گو کریں تیرے لب شیریں پر ہجوم

تلخ مت ہو کہ مٹھائی سے مگس آتی ہے

مہیا سب ہے اب اسباب ہولی

اٹھو یارو بھرو رنگوں سے جھولی

ترے رخسار سے بے طرح لپٹی جائے ہے ظالم

جو کچھ کہیے تو بل کھا الجھتی ہے زلف بے ڈھنگی

میرا معشوق ہے مزوں میں بھرا

کبھو میٹھا کبھو سلونا ہے

سنو ہندو مسلمانو کہ فیض عشق سے حاتمؔ

ہوا آزاد قید مذہب و مشرب سے اب فارغ

اس وقت دل مرا ترے پنجے کے بیچ تھا

جس وقت تو نے ہات لگایا تھا ہات کو

مزرع دنیا میں دانا ہے تو ڈر کر ہاتھ ڈال

ایک دن دینا ہے تجھ کو دانے دانے کا حساب

یہ کس مذہب میں اور مشرب میں ہے ہندو مسلمانو

خدا کو چھوڑ دل میں الفت دیر و حرم رکھنا

اہل معنی جز نہ بوجھے گا کوئی اس رمز کو

ہم نے پایا ہے خدا کو صورت انساں کے بیچ

پھڑکوں تو سر پھٹے ہے نہ پھڑکوں تو جی گھٹے

تنگ اس قدر دیا مجھے صیاد نے قفس

دیکھوں ہوں تجھ کو دور سے بیٹھا ہزار کوس

عینک نہ چاہئے نہ یہاں دوربیں مجھے

نہ کچھ ستم سے ترے آہ آہ کرتا ہوں

میں اپنے دل کی مدد گاہ گاہ کرتا ہوں

مدت ہوئی پلک سے پلک آشنا نہیں

کیا اس سے اب زیادہ کرے انتظار چشم

ہماری گفتگو سب سے جدا ہے

ہمارے سب سخن ہیں بانکپن کے

میں جاں بلب ہوں اے تقدیر تیرے ہاتھوں سے

کہ تیرے آگے مری کچھ نہ چل سکی تدبیر

ایک دن پوچھا نہ حاتمؔ کو کبھو اس نے کہ دوست

کب سے تو بیمار ہے اور کیا تجھے آزار ہے

جو جی میں آوے تو ٹک جھانک اپنے دل کی طرف

کہ اس طرف کو ادھر سے بھی راہ نکلے ہے

میں جتنا ڈھونڈھتا ہوں اس کو اتنا ہی نہیں پاتا

کدھر ہے کس طرف ہے اور کہاں ہے دل خدا جانے

چھل بل اس کی نگاہ کا مت پوچھ

سحر ہے ٹوٹکا ہے ٹونا ہے

ایک بوسہ مانگتا ہے تم سے حاتمؔ سا گدا

جانیو راہ خدا میں یہ بھی اک خیرات کی

رخسار کے عرق کا ترے بھاؤ دیکھ کر

پانی کے مول نرخ ہوا ہے گلاب کا

اگر روتے نہ ہم تو دیکھتے تم

جہاں میں ناؤ کو دریا نہ ہوتا

صبر بن اور کچھ نہ لو ہم راہ

کوچۂ عشق تنگ ہے یارو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے