Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رخسار پر اشعار

شاعری میں محبوب کے جسمانی

اعضا کے بیان والا حصہ بہت دلچسپ اور رومان پرور ہے ۔ یہاں آپ محبوب کے رخسار کا بیان پڑھ کر خود اپنے بدن میں ایک جھرجھری سی محسوس کرنے لگیں گے ۔ ہم یہاں نئی پرانی شاعری سے رخسار کو موضوع بنانے والے کچھ اچھے شعروں کا انتخاب آپ کے لئے پیش کر رہے ہیں ۔

سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا

کہ پھول کھلتے ہیں گل زار کے علاوہ بھی

احمد فراز

ان کے رخسار پہ ڈھلکے ہوئے آنسو توبہ

میں نے شبنم کو بھی شعلوں پہ مچلتے دیکھا

ساحر لدھیانوی

اب میں سمجھا ترے رخسار پہ تل کا مطلب

دولت حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے

تشریح

رخسار یعنی گال، دولتِ حسن یعنی حسن کی دولت، دربان یعنی رکھوالا۔ یہ شعر اپنے مضمون کی ندرت کی وجہ سے زبان زدِ عام ہے۔ شعر میں مرکزی حیثیت ’’رخسار پر تل‘‘ کو حاصل ہے کیونکہ اسی کی مناسبت سے شاعر نے مضمون پیدا کیا ہے۔ محبوب کے رخسار کو دربان(رکھوالا) سے مشابہ کرنا شاعر کا کمال ہے۔ اور جب دولتِ حسن کہا تو گویا محبوب کے سراپا کو آنکھوں کے سامنے لایا۔

رخسار پر تل ہونا حسن کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر چونکہ محبوب پیکرِ جمال ہے اس خوبی کی مناسبت سے شاعر نے یہ خیال باندھا ہے کہ جس طرح بری نظر سے محفوظ رکھنے کے لئے خوبصورت بچوں کے گال پر کالا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اسی طرح میرے محبوب کو لوگوں کی بری نظر سے بچانے کے لئے خدا نے اس کے گال پر تل رکھا ہے۔ اور جس طرح مال و دولت کو لٹیروں سے محفوظ رکھنے کے لئے اس پر دربان (رکھوالے)بٹھائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح خدا نے میرے محبوب کے حسن کو بری نظر سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے گال پر تل بنایا ہے۔

شفق سوپوری

نامعلوم

پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو

سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

قمر جلالوی

حاجت نہیں بناؤ کی اے نازنیں تجھے

زیور ہے سادگی ترے رخسار کے لیے

حیدر علی آتش

چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت

جا تماشا دیکھ اس رخسار کا

ولی محمد ولی

مدت سے اک لڑکی کے رخسار کی دھوپ نہیں آئی

اس لئے میرے کمرے میں اتنی ٹھنڈک رہتی ہے

بشیر بدر

رخسار پر ہے رنگ حیا کا فروغ آج

بوسے کا نام میں نے لیا وہ نکھر گئے

حکیم محمد اجمل خاں شیدا

عارضوں پر یہ ڈھلکتے ہوئے آنسو توبہ

ہم نے شعلوں پہ مچلتی ہوئی شبنم دیکھی

جوشؔ ملسیانی

جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ

ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض

احمد حسین مائل

اس کے رخسار دیکھ جیتا ہوں

عارضی میری زندگانی ہے

ناجی شاکر

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا

ہے مطالعہ مطلع انوار کا

ولی محمد ولی

قامت تری دلیل قیامت کی ہو گئی

کام آفتاب حشر کا رخسار نے کیا

حیدر علی آتش

جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ

مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا

احمد مشتاق

نکھر گئے ہیں پسینے میں بھیگ کر عارض

گلوں نے اور بھی شبنم سے تازگی پائی

غلام ربانی تاباں

ترے رخسار سے بے طرح لپٹی جائے ہے ظالم

جو کچھ کہیے تو بل کھا الجھتی ہے زلف بے ڈھنگی

شیخ ظہور الدین حاتم

رخسار کے عرق کا ترے بھاؤ دیکھ کر

پانی کے مول نرخ ہوا ہے گلاب کا

شیخ ظہور الدین حاتم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے