کامران نفیس کے اشعار
منتظر ہوں تری آواز سے تصویر تلک
ایک وقفہ ہی تو درکار تھا ملنے کے لیے
صف بہ صف تیری محبت نے سنبھالا ہم کو
اور ہم ٹوٹ کے بکھرے بھی تو یکجائی رہی
آنکھ کو نم کیے بغیر دل کو برا کئے بغیر
اس کی گلی سے آ گئے ہم تو صدا کیے بغیر
کل دوپہر کو ساتھ رہا تھا وہ دیر تک
پھر اس کے بعد شام رہی شام ہی رہی
اور کھلتی ہی چلی جائے گی شب
ہم تری زلف اگر کھولتے جائیں
دل دھڑکنے کا سبب زندگی ہو سکتی ہے
یہ ضروری تو نہیں ہے کہ تری یاد ہی ہو
یہ تو ہم شہر میں کچھ دن سے نہیں ہیں ورنہ
کیا تمہاری وہ چلے گی جو ہماری چلی ہے
پریشاں ہے بہت اس درد سے دل
ہوا ٹھہرے تو کچھ تدبیر ٹھہرے
آخری پرندے کی ڈوبتی ہوئی آواز
شام ہونے والی ہے اب ہمیں اجازت ہے
اس ایک لمحے کی رائیگانی کا دکھ ہے سارا
وہ تیری قربت میں جو گزرنے سے رہ گیا تھا
شجر پر جب سے ہرجانے لگے ہیں
پرندے چھوڑ کر جانے لگے ہیں
خط شکستہ میں کیا جانے کب کشید آ جائے
کہ سانس روک کے کریو میاں کتابت عشق
آ جاتی ہیں کچھ خوشیاں اندیشوں میں
کچھ اندیشے خوشیوں میں آ جاتے ہیں
مان لینا ہے ضروری جاننے سے
تیرگی میں آئینے کو دیکھنا کیا
میں نے ہجرت کو لکھا واقعۂ گمشدگی
اور پڑاؤ میں ہوئی موت کو منزل لکھا
دکھائی بھی نہیں دے گی بدن غرقاب کر کے
میان وصل اک چالاک خاک اڑتی رہے گی
ایک ہی در تھا گلی میں وہ بھی دروازہ ہوا
جب سے ہر آواز پر بے کار میں کھلنے لگا
ہمارے چاک گریباں کا تار تھا یہ کبھی
یہ جس پھریرے کو نکلے ہیں آپ لہرانے
نظروں کا بے چین بگولہ گرد اڑاتا پھرتا ہے
جس محفل میں تم نہیں ہوتے اس محفل کے صحرا میں
نہ بن پڑی کوئی صورت تو ایک دن گھر سے
میں چل دیا کسی نقصان کی تلافی میں
کھیل رچا کر شہر اجاڑیں کٹھ پتلی کے ساتھ
لشکر کے سالار تماشا گر بھی ہوتے ہیں
وہ اک آواز تھی منزل نہیں تھی
مگر میں اس کی جانب چل پڑا تھا