Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kamran Nafees's Photo'

کامران نفیس

1977 | کراچی, پاکستان

کامران نفیس کے اشعار

142
Favorite

باعتبار

منتظر ہوں تری آواز سے تصویر تلک

ایک وقفہ ہی تو درکار تھا ملنے کے لیے

خط شکستہ میں کیا جانے کب کشید آ جائے

کہ سانس روک کے کریو میاں کتابت عشق

اس ایک لمحے کی رائیگانی کا دکھ ہے سارا

وہ تیری قربت میں جو گزرنے سے رہ گیا تھا

آ جاتی ہیں کچھ خوشیاں اندیشوں میں

کچھ اندیشے خوشیوں میں آ جاتے ہیں

کھڑکی کا یہ بھاری پردہ

ہجر میں ململ ہو جاتا ہے

آخری پرندے کی ڈوبتی ہوئی آواز

شام ہونے والی ہے اب ہمیں اجازت ہے

حبس بڑھتا ہے آہ بھرنے سے

میرے حصے کی سانس مت کھینچو

صف بہ صف تیری محبت نے سنبھالا ہم کو

اور ہم ٹوٹ کے بکھرے بھی تو یکجائی رہی

دل دھڑکنے کا سبب زندگی ہو سکتی ہے

یہ ضروری تو نہیں ہے کہ تری یاد ہی ہو

ہوا ٹکرا رہی ہے کینوس سے

بکھرتے جا رہے ہیں رنگ سارے

اب حال یہ ہے کہ رات ہے اور

سنسان سی ایک رہ گزر ہے

کل دوپہر کو ساتھ رہا تھا وہ دیر تک

پھر اس کے بعد شام رہی شام ہی رہی

یہ صور ہے دوسری دفعہ کا

اور لوگ تمام سو رہے ہیں

ہمارے چاک گریباں کا تار تھا یہ کبھی

یہ جس پھریرے کو نکلے ہیں آپ لہرانے

آنکھ کو نم کیے بغیر دل کو برا کئے بغیر

اس کی گلی سے آ گئے ہم تو صدا کیے بغیر

آواز پہ کون ٹھیرتا ہے

رک جاؤ گے ہم جہاں کہیں گے

اور کھلتی ہی چلی جائے گی شب

ہم تری زلف اگر کھولتے جائیں

یہ تو ہم شہر میں کچھ دن سے نہیں ہیں ورنہ

کیا تمہاری وہ چلے گی جو ہماری چلی ہے

غم کہاں دیکھنے کی شے ہے مگر

دیدنی ہے وہ سوگوار نکھار

شجر پر جب سے ہرجانے لگے ہیں

پرندے چھوڑ کر جانے لگے ہیں

ایک ہی در تھا گلی میں وہ بھی دروازہ ہوا

جب سے ہر آواز پر بے کار میں کھلنے لگا

تیز ہوتی ہے سر شام ہوا

اور ہو جاتی ہے سفاک الگ

نظروں کا بے چین بگولہ گرد اڑاتا پھرتا ہے

جس محفل میں تم نہیں ہوتے اس محفل کے صحرا میں

مان لینا ہے ضروری جاننے سے

تیرگی میں آئینے کو دیکھنا کیا

میں نے ہجرت کو لکھا واقعۂ گمشدگی

اور پڑاؤ میں ہوئی موت کو منزل لکھا

کھیل رچا کر شہر اجاڑیں کٹھ پتلی کے ساتھ

لشکر کے سالار تماشا گر بھی ہوتے ہیں

پریشاں ہے بہت اس درد سے دل

ہوا ٹھہرے تو کچھ تدبیر ٹھہرے

وہ اک آواز تھی منزل نہیں تھی

مگر میں اس کی جانب چل پڑا تھا

نہ بن پڑی کوئی صورت تو ایک دن گھر سے

میں چل دیا کسی نقصان کی تلافی میں

اور آتا اگر خیال ان کا

اور سرشار ہو گئے ہوتے

دکھائی بھی نہیں دے گی بدن غرقاب کر کے

میان وصل اک چالاک خاک اڑتی رہے گی

Recitation

بولیے