Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kamran Nafees's Photo'

کامران نفیس

1977 | کراچی, پاکستان

کامران نفیس کے اشعار

105
Favorite

باعتبار

منتظر ہوں تری آواز سے تصویر تلک

ایک وقفہ ہی تو درکار تھا ملنے کے لیے

صف بہ صف تیری محبت نے سنبھالا ہم کو

اور ہم ٹوٹ کے بکھرے بھی تو یکجائی رہی

آنکھ کو نم کیے بغیر دل کو برا کئے بغیر

اس کی گلی سے آ گئے ہم تو صدا کیے بغیر

اب حال یہ ہے کہ رات ہے اور

سنسان سی ایک رہ گزر ہے

کل دوپہر کو ساتھ رہا تھا وہ دیر تک

پھر اس کے بعد شام رہی شام ہی رہی

اور کھلتی ہی چلی جائے گی شب

ہم تری زلف اگر کھولتے جائیں

دل دھڑکنے کا سبب زندگی ہو سکتی ہے

یہ ضروری تو نہیں ہے کہ تری یاد ہی ہو

یہ تو ہم شہر میں کچھ دن سے نہیں ہیں ورنہ

کیا تمہاری وہ چلے گی جو ہماری چلی ہے

غم کہاں دیکھنے کی شے ہے مگر

دیدنی ہے وہ سوگوار نکھار

ہوا ٹکرا رہی ہے کینوس سے

بکھرتے جا رہے ہیں رنگ سارے

پریشاں ہے بہت اس درد سے دل

ہوا ٹھہرے تو کچھ تدبیر ٹھہرے

آخری پرندے کی ڈوبتی ہوئی آواز

شام ہونے والی ہے اب ہمیں اجازت ہے

آواز پہ کون ٹھیرتا ہے

رک جاؤ گے ہم جہاں کہیں گے

اس ایک لمحے کی رائیگانی کا دکھ ہے سارا

وہ تیری قربت میں جو گزرنے سے رہ گیا تھا

شجر پر جب سے ہرجانے لگے ہیں

پرندے چھوڑ کر جانے لگے ہیں

خط شکستہ میں کیا جانے کب کشید آ جائے

کہ سانس روک کے کریو میاں کتابت عشق

آ جاتی ہیں کچھ خوشیاں اندیشوں میں

کچھ اندیشے خوشیوں میں آ جاتے ہیں

مان لینا ہے ضروری جاننے سے

تیرگی میں آئینے کو دیکھنا کیا

میں نے ہجرت کو لکھا واقعۂ گمشدگی

اور پڑاؤ میں ہوئی موت کو منزل لکھا

دکھائی بھی نہیں دے گی بدن غرقاب کر کے

میان وصل اک چالاک خاک اڑتی رہے گی

ایک ہی در تھا گلی میں وہ بھی دروازہ ہوا

جب سے ہر آواز پر بے کار میں کھلنے لگا

ہمارے چاک گریباں کا تار تھا یہ کبھی

یہ جس پھریرے کو نکلے ہیں آپ لہرانے

کھڑکی کا یہ بھاری پردہ

ہجر میں ململ ہو جاتا ہے

تیز ہوتی ہے سر شام ہوا

اور ہو جاتی ہے سفاک الگ

اور آتا اگر خیال ان کا

اور سرشار ہو گئے ہوتے

نظروں کا بے چین بگولہ گرد اڑاتا پھرتا ہے

جس محفل میں تم نہیں ہوتے اس محفل کے صحرا میں

نہ بن پڑی کوئی صورت تو ایک دن گھر سے

میں چل دیا کسی نقصان کی تلافی میں

کھیل رچا کر شہر اجاڑیں کٹھ پتلی کے ساتھ

لشکر کے سالار تماشا گر بھی ہوتے ہیں

حبس بڑھتا ہے آہ بھرنے سے

میرے حصے کی سانس مت کھینچو

یہ صور ہے دوسری دفعہ کا

اور لوگ تمام سو رہے ہیں

وہ اک آواز تھی منزل نہیں تھی

مگر میں اس کی جانب چل پڑا تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے