کرامت علی کرامت کے اشعار
ہمیشہ آگ کے دریا میں عشق کیوں اترے
کبھی تو حسن کو غرق عذاب ہونا تھا
کوئی زمین ہے تو کوئی آسمان ہے
ہر شخص اپنی ذات میں اک داستان ہے
میں لفظ لفظ میں تجھ کو تلاش کرتا ہوں
سوال میں نہیں آتا نہ آ جواب میں آ
-
موضوع : ہجر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
منزل پہ بھی پہنچ کے میسر نہیں سکوں
مجبور اس قدر ہیں شعور سفر سے ہم
غم فراق کو سینے سے لگ کے سونے دو
شب طویل کی ہوگی سحر کبھی نہ کبھی
وہ کون تھا جو مری زندگی کے دفتر سے
حروف لے گیا خالی کتاب چھوڑ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سکون وصل میں اتنا نصیب ہو کہ نہ ہو
جس اضطراب سے میں انتظار کرتا ہوں
ٹوٹ کر کتنوں کو مجروح یہ کر سکتا ہے
سنگ تو نے ابھی دیکھا نہیں شیشے کا جگر
وہ میری فہم کا لیتا ہے امتحاں شاید
کہ ہر سوال سے پہلے جواب مانگے ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چبھ رہا تھا دل میں ہر دم کر رہا تھا بے قرار
اک اذیت ناک پہلو جو مری راحت میں تھا
غم ہستی بھلا کب معتبر ہو
محبت میں نہ جب تک آنکھ تر ہو
پتوار گر گئی تھی سمندر کی گود میں
دل کا سفینہ پھر بھی لہو کے سفر میں تھا
میں شعاع ذات کے سینے میں گونجا ہوں کبھی
اور کرامتؔ میں کبھی لمحوں کے خوابوں میں رہا
تم مرا حال پوچھتے کیا ہو
اب تو جس حال میں ہوں اچھا ہے
تم ہمیں یاد کرو یا نہ کرو
ہم تمہیں یاد کیے جاتے ہیں
اچھا ہے یا خراب نہیں اس سے واسطہ
پھوٹا ہوا یہ میرا مقدر مجھے عزیز
جو آیا ہے اسے جانا ہے اک دن
ازل سے تو یہی اک سلسلہ ہے
تم کام اپنا کل کے لئے چھوڑتے ہو کیوں
دیکھا ہے کس نے کل کو جو کرنا ہے کر لو آج
یہ اپنے ہی کردار کا ہے نتیجہ
جو رب کی طرف سے یہ ہم پر غضب ہے
ہاتھی کے کئی دانت چبانے کے لئے ہیں
کچھ دانت مگر صرف دکھانے کے لئے ہیں
ہاتھ آئے کرامت کو کیا عالم فانی سے
آیا ہے بشر تنہا جائے گا بشر خالی