Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kishwar Naheed's Photo'

پاکستانی شاعرہ ، اپنے تانیثی خیالات اور مذہبی کٹرپن کی مخالفت کے لئے مشہور

پاکستانی شاعرہ ، اپنے تانیثی خیالات اور مذہبی کٹرپن کی مخالفت کے لئے مشہور

کشور ناہید کے اشعار

7.1K
Favorite

باعتبار

کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا

بچھڑا تو خیال اس کا حق تھا

ہمیں دیکھو ہمارے پاس بیٹھو ہم سے کچھ سیکھو

ہمیں نے پیار مانگا تھا ہمیں نے داغ پائے ہیں

دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے

اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے

دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ

مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں

اب صرف لباس رہ گیا ہے

وہ لے گیا کل بدن چرا کر

اس کو فرصت بھی نہیں مجھ کو تمنا بھی نہیں

پھر خلش کیا ہے کہ رہ رہ کے وفا ڈھونڈھتی ہے

جوان گیہوں کے کھیتوں کو دیکھ کر رو دیں

وہ لڑکیاں کہ جنہیں بھول بیٹھیں مائیں بھی

ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں

کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے

اپنی بے چہرگی چھپانے کو

آئینے کو ادھر ادھر رکھا

شامل ہوں میں تیرے رتجگوں میں

جاگوں بھی تو تیرے خواب سوچوں

پانی کا بہاؤ تھم گیا ہے

نکلی ہے ندی سے وہ نہا کر

اسے ہی بات سنانے کو دل نہیں کرتا

وہ شخص جس کے لیے زندگی سماعت تھی

اپنا نام بھی اب تو بھول گئی ناہیدؔ

کوئی پکارے تو حیرت سے تکتی ہوں

کون جانے کہ اڑتی ہوئی دھوپ بھی

کس طرف کون سی منزلوں میں گئی

ملال اس کو بھی تھا اور اداس ہم بھی تھے

یہ کیسی پہلی ملاقات تھی کہ غم بھی تھے

یہ زندگی جسے ڈھونڈا تھا آسمانوں میں

ہوا کے ہاتھ پہ لکھی ہوئی عبارت تھی

تعلقات کے تعویذ بھی گلے میں نہیں

ملال دیکھنے آیا ہے راستہ کیسے

ایک موہوم سا رشتہ ہے سو رکھنا اس کو

تم جہاں جاؤ سمجھ لینا وہیں ہم بھی تھے

اداسیوں کو تو آنگن ہی چاہئیں خالی

چھتوں پہ چاندنی راتوں کا سلسلہ رکھنا

وہ جس کا شوق ہے کھلتے گلاب مل دینا

گلے ملو تو اسے بھی اداس کر جانا

کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی

کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا

مان بھی لوں کہ تری یاد محض واہمہ ہے

پھر بھی وہ یاد ہی دم ساز رہی شام و سحر

بھیجی ہیں اس نے پھولوں میں منہ بند سیپیاں

انکار بھی عجب ہے بلاوا بھی ہے عجب

اب تو بدن کے جلنے کی بو شہر بھر میں ہے

کہنا بھی ناروا ہے سو کہتا نہیں کوئی

لرز رہی ہے زمیں سہمی لڑکیوں کی طرح

پکارتی ہے کہ تنہا نہ چھوڑ کر جانا

وہ جب بھی آیا بہت تیز بارشوں جیسا

وہ جس نے چاہا مجھے سرمئی گھٹا رکھنا

مردوں کو سب روا پہ ہے عورت کو ناروا

شرم و حیا کا شہر میں چرچا بھی ہے عجب

شاید اداس شاخوں سے لپٹا ہوا ملے

اپنی گلی میں اس کا ٹھکانہ بھی ہے عجب

مانگ میں ٹانکنے آیا تھا ستارے کوئی

دل کو کیا سوجھی کہ اس خواب کو بیمار کیا

ہاں انہی گزرے زمانوں کے صدا ساز ہیں ہم

جن کے شعلوں پہ ہوا ناچتی دیکھی ہم نے

دل کو ترے فراق کی آرزو یاد رہ گئی

دن وہ محبتوں کے بھی مثل رہ سفر گئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے