کشور ناہید کے اشعار
کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا
بچھڑا تو خیال اس کا حق تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمیں دیکھو ہمارے پاس بیٹھو ہم سے کچھ سیکھو
ہمیں نے پیار مانگا تھا ہمیں نے داغ پائے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے
اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ
مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس کو فرصت بھی نہیں مجھ کو تمنا بھی نہیں
پھر خلش کیا ہے کہ رہ رہ کے وفا ڈھونڈھتی ہے
جوان گیہوں کے کھیتوں کو دیکھ کر رو دیں
وہ لڑکیاں کہ جنہیں بھول بیٹھیں مائیں بھی
-
موضوع : عورت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں
کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنی بے چہرگی چھپانے کو
آئینے کو ادھر ادھر رکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شامل ہوں میں تیرے رتجگوں میں
جاگوں بھی تو تیرے خواب سوچوں
اسے ہی بات سنانے کو دل نہیں کرتا
وہ شخص جس کے لیے زندگی سماعت تھی
اپنا نام بھی اب تو بھول گئی ناہیدؔ
کوئی پکارے تو حیرت سے تکتی ہوں
کون جانے کہ اڑتی ہوئی دھوپ بھی
کس طرف کون سی منزلوں میں گئی
-
موضوع : دھوپ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ملال اس کو بھی تھا اور اداس ہم بھی تھے
یہ کیسی پہلی ملاقات تھی کہ غم بھی تھے
یہ زندگی جسے ڈھونڈا تھا آسمانوں میں
ہوا کے ہاتھ پہ لکھی ہوئی عبارت تھی
تعلقات کے تعویذ بھی گلے میں نہیں
ملال دیکھنے آیا ہے راستہ کیسے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک موہوم سا رشتہ ہے سو رکھنا اس کو
تم جہاں جاؤ سمجھ لینا وہیں ہم بھی تھے
اداسیوں کو تو آنگن ہی چاہئیں خالی
چھتوں پہ چاندنی راتوں کا سلسلہ رکھنا
وہ جس کا شوق ہے کھلتے گلاب مل دینا
گلے ملو تو اسے بھی اداس کر جانا
کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مان بھی لوں کہ تری یاد محض واہمہ ہے
پھر بھی وہ یاد ہی دم ساز رہی شام و سحر
بھیجی ہیں اس نے پھولوں میں منہ بند سیپیاں
انکار بھی عجب ہے بلاوا بھی ہے عجب
اب تو بدن کے جلنے کی بو شہر بھر میں ہے
کہنا بھی ناروا ہے سو کہتا نہیں کوئی
لرز رہی ہے زمیں سہمی لڑکیوں کی طرح
پکارتی ہے کہ تنہا نہ چھوڑ کر جانا
وہ جب بھی آیا بہت تیز بارشوں جیسا
وہ جس نے چاہا مجھے سرمئی گھٹا رکھنا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مردوں کو سب روا پہ ہے عورت کو ناروا
شرم و حیا کا شہر میں چرچا بھی ہے عجب
شاید اداس شاخوں سے لپٹا ہوا ملے
اپنی گلی میں اس کا ٹھکانہ بھی ہے عجب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مانگ میں ٹانکنے آیا تھا ستارے کوئی
دل کو کیا سوجھی کہ اس خواب کو بیمار کیا
ہاں انہی گزرے زمانوں کے صدا ساز ہیں ہم
جن کے شعلوں پہ ہوا ناچتی دیکھی ہم نے
دل کو ترے فراق کی آرزو یاد رہ گئی
دن وہ محبتوں کے بھی مثل رہ سفر گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ