Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Manzar Lakhnavi's Photo'

منظر لکھنوی

- 1965

منظر لکھنوی کے اشعار

5.7K
Favorite

باعتبار

دامن و جیب و گریباں کا نہیں کوئی ملال

غم یہ ہے دست جنوں کل کے لئے کام نہیں

مرگ عاشق پہ فرشتہ موت کا بدنام تھا

وہ ہنسی روکے ہوئے بیٹھا تھا جس کا کام تھا

عہد شباب رفتہ کیا عہد پر فضا تھا

جینے کا بھی مزا تھا مرنے کا بھی مزا تھا

کسی آنکھ میں نیند آئے تو جانوں

مرا قصۂ غم کہانی نہیں ہے

ان سے جب پوچھا گیا بسمل تمہارے کیا کریں

ہنس کے بولے زخم دل دیکھا کریں رویا کریں

قفس میں جب ذرا جھپکی مری آنکھ

یہی دیکھا نشیمن جل رہا ہے

ان کو ہنسا رہی ہے جامہ دری ہماری

پروان چڑھ رہی ہے دیوانگی ہماری

غصہ قاتل کا نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے

ایک سر ہے کہ وہ ہر روز قلم ہوتا ہے

بہکی بہکی نگۂ ناز خدا خیر کرے

حسن میں عشق کے انداز خدا خیر کرے

سجدے کرتا جا رہا ہوں کوئے جاناں کی طرف

راستہ بتلا رہی ہے میری پیشانی مجھے

پوچھنے والے بھری بزم میں قاتل کو نہ پوچھ

نام تیرا ہی اگر لے لیا سودائی نے

وہ تو کہئے آپ کی الفت میں دل بہلا رہا

ورنہ دنیا چار دن بھی رہنے کے قابل نہ تھی

کچھ ابر کو بھی ضد ہے منظرؔ مری توبہ سے

جب عہد کیا میں نے گھنگھور گھٹا چھائی

وحشت وحشت تری تفریح کا ساماں ہے ابھی

کہ گریباں کا مرے نام گریباں ہے ابھی

مرا بیڑی پہننا تھا کہ دنیا کی ہوا بدلی

زمانے کی بہاریں پھٹ پڑیں آ کے گلستاں پر

چھڑی ہے آج مجھ سے آسماں سے

ذرا ہٹ جائیے گا درمیاں سے

مٹانے والے ہمارا ہی گھر مٹانا تھا

چمن میں ایک سے ایک اچھا آشیانا تھا

نہ دل میں لہو ہے نہ آنکھوں میں آنسو

غموں کی نچوڑی ہوئی آستیں ہوں

ہیں سو طریقے اور بھی اے بے قرار دل

اظہار شکوہ شکوے کے انداز میں نہ ہو

میں تنکے چنتا پھرتا ہوں صیاد تیلیاں

تیار ہو رہا ہے قفس آشیاں کے ساتھ

اپنی بیتی نہ کہوں تیری کہانی نہ کہوں

پھر مزہ کاہے سے پیدا کروں افسانے میں

مانگنے پر کیا نہ دے گا طاقت صبر و سکون

جس نے بے مانگے عطا کر دی پریشانی مجھے

مدتوں بعد کبھی اے نظر آنے والے

عید کا چاند نہ دیکھا تری صورت دیکھی

برا ہو عشق کا سب کچھ سمجھ رہا ہوں میں

بنا رہا ہے کوئی بن رہا ہوں دیوانہ

تفریق حسن و عشق کے انداز میں نہ ہو

لفظوں میں فرق ہو مگر آواز میں نہ ہو

محبت تو ہم نے بھی کی اور بہت کی

مگر حسن کو عشق کرنا نہ آیا

کھیلنا آگ کے شعلوں سے کچھ آسان نہیں

بس یہ اک بات خدا داد ہے پروانے میں

آپ کی یاد میں روؤں بھی نہ میں راتوں کو

ہوں تو مجبور مگر اتنا بھی مجبور نہیں

ہوئی دیوانگی اس درجہ مشہور جہاں میری

جہاں دو آدمی بھی ہیں چھڑی ہے داستاں میری

اہل محشر دیکھ لوں قاتل کو تو پہچان لوں

بھولی بھالی شکل تھی اور کچھ بھلا سا نام تھا

کم سنی کیا کم تھی اس پر قہر ہے شکی مزاج

اپنا ناوک میرے دل سے کھینچ کر دیکھا کئے

پھر منہ سے ارے کہہ کر پیمانہ گرا دیجے

پھر توڑیئے دل میرا پھر لیجئے انگڑائی

اب اتنا عقل سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں

گلوں کے شکوے ستاروں سے کہہ رہا ہوں میں

ایک موسیٰ تھے کہ ان کا ذکر ہر محفل میں ہے

اور اک میں ہوں کہ اب تک میرے دل کی دل میں ہے

گلوں سے کھیل رہے ہیں نسیم کے جھونکے

قفس میں بیٹھا ہوا ہاتھ مل رہا ہوں میں

واعظ سے نہ پوچھوں گا کبھی مسئلۂ عشق

میں خوب سمجھتا ہوں جو ارشاد کریں گے

چنے تھے پھول مقدر سے بن گئے کانٹے

بہار ہائے ہمارے لئے بہار نہیں

دو گھڑی دل کے بہلانے کا سہارا بھی گیا

لیجئے آج تصور میں بھی تنہائی ہے

کبھی تو اپنا سمجھ کر جواب دے ڈالو

بدل بدل کے صدائیں پکارتا ہوں میں

ظلم پر ظلم آ گئے غالب

آبلے آبلوں کو چھوڑ گئے

کس کا کوچہ ہے آ گیا ہوں کہاں

یاں تو کچھ نیند آئی جاتی ہے

یہ انسان نادیدہ الفت کا مارا

خدا جانے کس کس کو سجدہ کرے گا

مجھے مٹا کے وہ یوں بیٹھے مسکراتے ہیں

کسی سے جیسے کوئی نیک کام ہو جائے

جمع ہم کرتے گئے چن چن کے تنکے باغ میں

اور نہ جانے کس کا کس کا آشیاں بنتا گیا

جانے والے جا خدا حافظ مگر یہ سوچ لے

کچھ سے کچھ ہو جائے گی دیوانگی تیرے بغیر

شب ہجر یوں دل کو بہلا رہے ہیں

کہ دن بھر کی بیتی کو دہرا رہے ہیں

مری رات کیوں کر کٹے گی الٰہی

مجھے دن کو تارے نظر آ رہے ہیں

ہنسی آنے کی بات ہے ہنس رہا ہوں

مجھے لوگ دیوانہ فرما رہے ہیں

گھر کو چھوڑا ہے خدا جانے کہاں جانے کو

اب سمجھ لیجئے ٹوٹا ہوا تارا مجھ کو

اک زمانہ ہو رہا ہے عشق میں ہم سے خلاف

کس کے کس کے دل میں دل ڈالیں الٰہی کیا کریں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے