محسنؔ بھوپالی کے اشعار
نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا
زندگی گل ہے نغمہ ہے مہتاب ہے
زندگی کو فقط امتحاں مت سمجھ
جو ملے تھے ہمیں کتابوں میں
جانے وہ کس نگر میں رہتے ہیں
کس قدر نادم ہوا ہوں میں برا کہہ کر اسے
کیا خبر تھی جاتے جاتے وہ دعا دے جائے گا
ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسنؔ
کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
صدائے وقت کی گر باز گشت سن پاؤ
مرے خیال کو تم شاعرانہ کہہ دینا
ایک مدت کی رفاقت کا ہو کچھ تو انعام
جاتے جاتے کوئی الزام لگاتے جاؤ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح
آج خود اپنے طلب گار ہیں ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سورج چڑھا تو پھر بھی وہی لوگ زد میں تھے
شب بھر جو انتظار سحر دیکھتے رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا خبر تھی ہمیں یہ زخم بھی کھانا ہوگا
تو نہیں ہوگا تری بزم میں آنا ہوگا
ابلاغ کے لئے نہ تم اخبار دیکھنا
ہو جستجو تو کوچہ و بازار دیکھنا
محسنؔ اپنائیت کی فضا بھی تو ہو
صرف دیوار و در کو مکاں مت سمجھ
روشنی ہیں سفر میں رہتے ہیں
وقت کی رہ گزر میں رہتے ہیں
اب کے موسم میں یہ معیار جنوں ٹھہرا ہے
سر سلامت رہیں دستار نہ رہنے پائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بدن کو روندنے والو ضمیر زندہ ہے
جو حق کی پوچھ رہے ہو تو حق ادا نہ ہوا
اس لیے سنتا ہوں محسنؔ ہر فسانہ غور سے
اک حقیقت کے بھی بن جاتے ہیں افسانے بہت
لفظوں کے احتیاط نے معنی بدل دیئے
اس اہتمام شوق میں حسن اثر گیا
اس سے مل کر اسی کو پوچھتے ہیں
بے خیالی سی بے خیالی ہے
لفظوں کو اعتماد کا لہجہ بھی چاہئے
ذکر سحر بجا ہے یقین سحر بھی ہے
سوچا تھا کہ اس بزم میں خاموش رہیں گے
موضوع سخن بن کے رہی کم سخنی بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
محسنؔ اور بھی نکھرے گا ان شعروں کا مفہوم
اپنے آپ کو پہچانیں گے جیسے جیسے لوگ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے مسیحاؤ اگر چارہ گری ہے دشوار
ہو سکے تم سے نیا زخم لگاتے جاؤ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خندۂ لب میں نہاں زخم ہنر دیکھے گا کون
بزم میں ہیں سب کے سب اہل نظر دیکھے گا کون
پہلے جو کہا اب بھی وہی کہتے ہیں محسنؔ
اتنا ہے بہ انداز دگر کہنے لگے ہیں