آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
یا عشق کی پکڑ کر گردن مروڑ ڈالوں
آساں نہیں دریائے محبت سے گزرنا
یاں نوح کی کشتی کو بھی طوفان کا ڈر ہے
آستیں اس نے جو کہنی تک چڑھائی وقت صبح
آ رہی سارے بدن کی بے حجابی ہاتھ میں
-
موضوع: حسن
اللہ رے تیرے سلسلۂ زلف کی کشش
جاتا ہے جی ادھر ہی کھنچا کائنات کا
-
موضوع: زلف
بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا
ہووے گی صبح روشن اک دم میں وصل کی شب
بند قبا کو اپنے ظالم نہ باز کرنا
اس رنگ سے اپنے گھر نہ جانا
دامن ترا خوں میں تر بہت ہے
اس واسطے فرقت میں جیتا مجھے رکھا ہے
یعنی میں تری صورت جب یاد کروں روؤں
کمر یار کے مذکور کو جانے دے میاں
تو قدم اس میں نہ رکھ راہ یہ باریک ہے دل
معلوم نہیں مجھ کو کہ جاوے گا کدھر کو
یوں سینہ ترا چاک گریباں سے نکل کر
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
-
موضوعات: خود_اذیتیاور 2 مزید
اس کے جانے سے مرا دل ہے مرے سینے میں
دم کا مہمان چراغ سحری کی صورت
یہ کہہ کے بیٹھ رہوں ہوں جو اپنے گھر میں ذرا
تو دل کہے ہے یہ گھبرا کے ''میں تو جاتا ہوں''