Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Muztar Khairabadi's Photo'

مضطر خیرآبادی

1865 - 1927 | گوالیار, انڈیا

معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا

معروف فلم نغمہ نگار جاوید اختر کے دادا

مضطر خیرآبادی کے اشعار

34.3K
Favorite

باعتبار

مصیبت اور لمبی زندگانی

بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا

وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں

اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

تشریح

یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس شعر کا بنیادی مضمون انتظار اور ہجر ہے۔ اگرچہ ایک عام انسان پر زندگی میں کئی بار اور کئی شکلوں میں مشکل وقت آن پڑتا ہے مگر اس شعر میں ایک عاشق کی نفسیات کو مدِ نظر رکھ کر شاعر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک عاشق پر ساری عمر میں دو وقت بہت کٹھن ہوتے ہیں۔ ایک وقت وہ جب عاشق اپنے محبوب کے آنے کا انتظار کرتا ہے اور دوسرا وہ وقت جب اس کا محبوب اس سے دور چلا جاتا ہے۔ اسی لئے کہا ہے کہ میری زندگی میں اے میرے محبوب دو کٹھن زمانے گزرے ہیں۔ ایک وہ جب میں تمہارا انتظار کرتا ہے اور دوسرا وہ جب تم مجھے فراق کی حالت میں چھوڑ کے چلے جاتے ہو۔ ظاہر ہے کہ دونوں عالم عذاب دہ ہیں۔ انتظار کا عالم ہو یا جدائی کا دونوں میں عاشق کی جان تڑپتی ہے۔

شفق سوپوری

علاج درد دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا

تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا

اسے کیوں ہم نے دیا دل جو ہے بے مہری میں کامل جسے عادت ہے جفا کی

جسے چڑھ مہر و وفا کی جسے آتا نہیں آنا غم و حسرت کا مٹانا جو ستم میں ہے یگانہ

جسے کہتا ہے زمانہ بت بے مہر و دغا باز جفا پیشہ فسوں ساز ستم خانہ بر انداز

غضب جس کا ہر اک ناز نظر فتنہ مژہ تیر بلا زلف گرہ گیر غم و رنج کا بانی قلق و درد

کا موجب ستم و جور کا استاد جفا کاری میں ماہر جو ستم کیش و ستم گر جو ستم پیشہ ہے

دلبر جسے آتی نہیں الفت جو سمجھتا نہیں چاہت جو تسلی کو نہ سمجھے جو تشفی کو نہ

جانے جو کرے قول نہ پورا کرے ہر کام ادھورا یہی دن رات تصور ہے کہ ناحق

اسے چاہا جو نہ آئے نہ بلائے نہ کبھی پاس بٹھائے نہ رخ صاف دکھائے نہ کوئی

بات سنائے نہ لگی دل کی بجھائے نہ کلی دل کی کھلائے نہ غم و رنج گھٹائے نہ رہ و رسم

بڑھائے جو کہو کچھ تو خفا ہو کہے شکوے کی ضرورت جو یہی ہے تو نہ چاہو جو نہ

چاہو گے تو کیا ہے نہ نباہو گے تو کیا ہے بہت اتراؤ نہ دل دے کے یہ کس کام کا دل

ہے غم و اندوہ کا مارا ابھی چاہوں تو میں رکھ دوں اسے تلووں سے مسل کر ابھی منہ

دیکھتے رہ جاؤ کہ ہیں ان کو ہوا کیا کہ انہوں نے مرا دل لے کے مرے ہاتھ سے کھویا

مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت

کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے

کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

یاد کرنا ہی ہم کو یاد رہا

بھول جانا بھی تم نہیں بھولے

وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں

آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں

برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں نہیں

بھلے ہو تم جو کسی کا بھلا نہیں کرتے

بوسے اپنے عارض گلفام کے

لا مجھے دے دے ترے کس کام کے

لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو

ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو

وقت آرام کا نہیں ملتا

کام بھی کام کا نہیں ملتا

اک ہم ہیں کہ ہم نے تمہیں معشوق بنایا

اک تم ہو کہ تم نے ہمیں رکھا نہ کہیں کا

جیے جاتے ہیں پستی میں ترے سارے جہاں والے

کبھی نیچے بھی نظریں ڈال اونچے آسماں والے

اگر تقدیر سیدھی ہے تو خود ہو جاؤ گے سیدھے

خفا بیٹھے رہو تم کو منانے کون آتا ہے

ہمارے ایک دل کو ان کی دو زلفوں نے گھیرا ہے

یہ کہتی ہے کہ میرا ہے وہ کہتی ہے کہ میرا ہے

ان کو آتی تھی نیند اور مجھ کو

اپنا قصہ تمام کرنا تھا

عمر سب ذوق تماشا میں گزاری لیکن

آج تک یہ نہ کھلا کس کے طلب گار ہیں ہم

مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں

گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں

ان کا اک پتلا سا خنجر ان کا اک نازک سا ہاتھ

وہ تو یہ کہیے مری گردن خوشی میں کٹ گئی

آنکھیں نہ چراؤ دل میں رہ کر

چوری نہ کرو خدا کے گھر میں

حال اس نے ہمارا پوچھا ہے

پوچھنا اب ہمارے حال کا کیا

آئنہ دیکھ کر غرور فضول

بات وہ کر جو دوسرا نہ کرے

مرے دل نے جھٹکے اٹھائے ہیں کتنے یہ تم اپنی زلفوں کے بالوں سے پوچھو

کلیجے کی چوٹوں کو میں کیا بتاؤں یہ چھاتی پہ لہرانے والوں سے پوچھو

تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول

میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے

زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے

اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا

جان دینا نہیں کسے منظور

تو کسی کام سے تو آئے گا

وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند

نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے

صبح تک کون جئے گا شب تنہائی میں

دل ناداں تجھے امید سحر ہے بھی تو کیا

ایک ہم ہیں کہ جہاں جائیں برے کہلائیں

ایک وہ ہیں کہ جہاں جائیں وہیں اچھے ہیں

جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے

تو بولے آپ جس دن حشر میں مدفن سے نکلیں گے

محبت میں کسی نے سر پٹکنے کا سبب پوچھا

تو کہہ دوں گا کہ اپنی مشکلیں آسان کرتا ہوں

کیا اثر خاک تھا مجنوں کے پھٹے کپڑوں میں

ایک ٹکڑا بھی تو لیلیٰ کا گریباں نہ ہوا

بازو پہ رکھ کے سر جو وہ کل رات سو گیا

آرام یہ ملا کہ مرا ہات سو گیا

ایسی قسمت کہاں کہ جام آتا

بوئے مے بھی ادھر نہیں آئی

میرے اشکوں کی روانی کو روانی تو کہو

خیر تم خون نہ سمجھو اسے پانی تو کہو

ہم سے اچھا نہیں ملنے کا اگر تم چاہو

تم سے اچھے ابھی ملتے ہیں اگر ہم چاہیں

اٹھے اٹھ کر چلے چل کر تھمے تھم کر کہا ہوگا

میں کیوں جاؤں بہت ہیں ان کی حالت دیکھنے والے

تیری رحمت کا نام سن سن کر

مبتلا ہو گیا گناہوں میں

اے عشق کہیں لے چل یہ دیر و حرم چھوٹیں

ان دونوں مکانوں میں جھگڑا نظر آتا ہے

حال دل اغیار سے کہنا پڑا

گل کا قصہ خار سے کہنا پڑا

دم خواب راحت بلایا انہوں نے تو درد نہاں کی کہانی کہوں گا

مرا حال لکھنے کے قابل نہیں ہے اگر مل گئے تو زبانی کہوں گا

میں مسیحا اسے سمجھتا ہوں

جو مرے درد کی دوا نہ کرے

میرا رنگ روپ بگڑ گیا مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا

جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

اے بتو رنج کے ساتھی ہو نہ آرام کے تم

کام ہی جب نہیں آتے ہو تو کس کام کے تم

عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے

تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا

سنو گے حال جو میرا تو داد کیا دو گے

یہی کہو گے کہ جھوٹا ہے تو زمانے کا

وہ شاید ہم سے اب ترک تعلق کرنے والے ہیں

ہمارے دل پہ کچھ افسردگی سی چھائی جاتی ہے

زاہد تو بخشے جائیں گنہ گار منہ تکیں

اے رحمت خدا تجھے ایسا نہ چاہئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے