Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Naseer Turabi's Photo'

نصیر ترابی

1945 - 2021 | کراچی, پاکستان

قبول پاکستانی سیریل ہمسفر کے ٹائٹل گیت اور غزل "وہ ہمسفر تھا مگر۔۔۔۔۔۔ کے مشہور شاعر

قبول پاکستانی سیریل ہمسفر کے ٹائٹل گیت اور غزل "وہ ہمسفر تھا مگر۔۔۔۔۔۔ کے مشہور شاعر

نصیر ترابی کے اشعار

11.3K
Favorite

باعتبار

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا

دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا

شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کو چلیے

اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے

کچھ روز نصیر آؤ چلو گھر میں رہا جائے

لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

اس کڑی دھوپ میں سایہ کر کے

تو کہاں ہے مجھے تنہا کر کے

آج کی رات اجالے مرے ہمسایہ ہیں

آج کی رات جو سو لوں تو نیا ہو جاؤں

یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا

اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا

میں اک شجر کی طرح رہگزر میں ٹھہرا ہوں

تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا

خود اپنے ہجر کی خواہش مجھے عزیز رہی

یہ تیرے وصل کا قصہ تو اک بہانہ ہوا

تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے

جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے

یہ ہوا سارے چراغوں کو اڑا لے جائے گی

رات ڈھلنے تک یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا

کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے

پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا

تجھ سے بچھڑوں تو کوئی پھول نہ مہکے مجھ میں

دیکھ کیا کرب ہے کیا ذات کی سچائی ہے

مدتوں بعد اگر سامنے آئے ہم تم

دھندلے دھندلے سے ملیں گے خد و خال ایسے میں

قربتیں ریت کی دیوار ہیں گر سکتی ہیں

مجھ کو خود اپنے ہی سائے میں ٹھہر جانا تھا

یہ روح رقص چراغاں ہے اپنے حلقے میں

یہ جسم سایہ ہے اور سایہ ڈھل رہا ہے میاں

شاید یہ انتظار کی لو فیصلہ کرے

میں اپنے ساتھ ہوں کہ دریچوں کے ساتھ ہوں

اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے

میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا

Recitation

بولیے