نشتر خانقاہی کے اشعار
اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے
-
موضوع : بچپن شاعری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بچھڑ کر اس سے سیکھا ہے تصور کو بدن کرنا
اکیلے میں اسے چھونا اکیلے میں سخن کرنا
مری قیمت کو سنتے ہیں تو گاہک لوٹ جاتے ہیں
بہت کمیاب ہو جو شے وہ ہوتی ہے گراں اکثر
پرسش حال سے غم اور نہ بڑھ جائے کہیں
ہم نے اس ڈر سے کبھی حال نہ پوچھا اپنا
دھمک کہیں ہو لرزتی ہیں کھڑکیاں میری
گھٹا کہیں ہو ٹپکتا ہے سائبان مرا
-
موضوع : گھٹا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں گھر بسا کے سمندر کے بیچ سویا تھا
اٹھا تو آگ کی لپٹوں میں تھا مکان مرا
دن نکلنا تھا کہ سارے شہر میں بھگدڑ مچی
انگنت خوابوں کے چہرے بھیڑ میں گم ہو گئے
ہر بار نیا لے کے جو فتنہ نہیں آیا
اس عمر میں ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ