Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Salim Saleem's Photo'

سالم سلیم

1985 | دلی, انڈیا

نئی نسل کے اہم شاعر

نئی نسل کے اہم شاعر

سالم سلیم کے اشعار

4.6K
Favorite

باعتبار

اپنے جیسی کوئی تصویر بنانی تھی مجھے

مرے اندر سے سبھی رنگ تمہارے نکلے

بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود

شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے

چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز

جو میرے سینہ میں اک روز خامشی ہوئی تھی

میں گھٹتا جا رہا ہوں اپنے اندر

تمہیں اتنا زیادہ کر لیا ہے

اک برف سی جمی رہے دیوار و بام پر

اک آگ میرے کمرے کے اندر لگی رہے

ترس رہی تھیں یہ آنکھیں کسی کی صورت کو

سو ہم بھی دشت میں آب رواں اٹھا لائے

یہ کیسی آگ ہے مجھ میں کہ ایک مدت سے

تماشہ دیکھ رہا ہوں میں اپنے جلنے کا

وہ دور تھا تو بہت حسرتیں تھیں پانے کی

وہ مل گیا ہے تو جی چاہتا ہے کھونے کو

زندگی نے جو کہیں کا نہیں رکھا مجھ کو

اب مجھے ضد ہے کہ برباد کیا جائے اسے

کتنا مشکل ہو گیا ہوں ہجر میں اس کے سو وہ

میرے پاس آئے گا اور آسان کر دے گا مجھے

تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب

ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے

میں آپ اپنے اندھیروں میں بیٹھ جاتا ہوں

پھر اس کے بعد کوئی شے چمکتی رہتی ہے

کیسا ہنگامہ بپا ہے کہ مرے شہر کے لوگ

خامشی ڈھونڈھنے غاروں کی طرف جاتے ہوئے

آ رہا ہوگا وہ دامن سے ہوا باندھے ہوئے

آج خوشبو کو پریشان کیا جائے گا

راس آتی نہیں اب میرے لہو کو کوئی خاک

ایسا اس جسم کا پابند سلاسل ہوا میں

میری مٹی میں کوئی آگ سی لگ جاتی ہے

جو بھڑکتی ہے ترے چھڑکے ہوئے پانی سے

تمام بچھڑے ہوؤں کو ملاؤ آج کی رات

تمام کھوئے ہوؤں کو اشارا کر کے لاؤ

ذہن کی قید سے آزاد کیا جائے اسے

جس کو پانا نہیں کیا یاد کیا جائے اسے

ہجر کے دن تو ہوئے ختم بڑی دھوم کے ساتھ

وصل کی رات ہے کیوں مرثیہ خوانی کریں ہم

کیا ہو گیا کہ بیٹھ گئی خاک بھی مری

کیا بات ہے کہ اپنے ہی اوپر کھڑا ہوں میں

تھکے ہوئے سے بدن کو لٹا کے بستر پر

ہم اپنے آپ سے لڑتے ہیں نیند آنے تک

میں زخم در بدری کھا کے لوٹ آؤں جب

مرے جلے ہوئے سینے پہ ہات رکھ دینا

اب اس کے بعد کچھ بھی نہیں اختیار میں

وہ جبر تھا کہ خود کو خدا کر چکے ہیں ہم

ٹوٹتے برتن کا شور اور گونگی بہری خامشی

ہم نے رکھ لی ہے بچا کر ایک گہری خامشی

چراغ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا

میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں

کہکشائیں مری مٹی کی طرف آتی ہوئیں

مرے ذرات ستاروں کی طرف جاتے ہوئے

نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتا ہوں

نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر سا رہتا ہے

بجھا رکھے ہیں یہ کس نے سبھی چراغ ہوس

ذرا سا جھانک کے دیکھیں کہیں ہوا ہی نہ ہو

سو گیا وقت کی دہلیز پہ سر رکھے ہوئے

میں کہاں تک سفر عشق میں تنہا جاتا

عشق کرنا بہت ضروری ہے

تم محبت کو عشق کہتے ہو

جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو

روح کے اندر کوئی کار بدن ہوتا ہوا

جو ایک دم میں تمام روحوں کو خاک کر دے

بدن سے اڑتا ہوا اک ایسا شرار دیکھوں

سمیٹنے میں لگے ہیں ہم اپنی سانسوں کو

یہ جانتے ہیں کہ اک دن بکھیر دے گا کوئی

یہ آنکھیں سوکھی پڑی ہیں لہو سے نم کر لوں

جو تم کہو تو ذرا سا تمہارا غم کر لوں

اس دل میں چبھا رہتا تھا کانٹے کی طرح وہ

اک روز اسے میں نے محبت سے نکالا

شاید کچھ مجبوری بڑھتی جاتی ہے

تجھ سے میری دوری بڑھتی جاتی ہے

دیکھنا تعبیر میں ہر صبح کو صحرا کی پیاس

رات کو پھر اپنے خوابوں میں سمندر دیکھنا

بھید بھرے اس پانی میں

ڈوب گیا حیرانی میں

اور کب تک زندگی کی ناز برداری کریں

دوستو آؤ چلو مرنے کی تیاری کریں

یہ جسم اترا ہوا ہے میرا کہ روح سے خود کو ڈھانپنا ہے

کوئی نہ آئے ذرا یہاں پر ابھی میں کپڑے بدل رہا ہوں

کتنے بے کار خداؤں کی عبادت کی ہے

آخری بار کسی بت سے شکایت کی ہے

کسی اور در کے نشان میری جبیں پہ ہیں

تو بہت دنوں سے مرا خدا نہیں ہو رہا

میں آسمان و زمیں کے جھگڑے میں یوں ہی بے وجہ پڑ گیا تھا

کوئی بلاتا ہے پاس اپنے کسی کے ہم راہ چل رہا ہوں

سنا ہے چاند کو الجھا لیا ہے شاخوں نے

سو اب چراغ دریچوں پہ رکھ دیے جائیں

خود اپنے آپ کو ویسے بھی ڈھونڈھنا ہوگا

صدائیں دے کے مجھے یوں بھی چھپ رہے گا کوئی

مجھی سے ہوئے یہ رستے تمام جاتے ہیں اس کے در تک

میں آ رہا ہوں اسی کے در پر کہ اپنے اندر نکل رہا ہوں

طے کر لیا ہے میں نے سرابوں بھرا سفر

اے دشت اب مجھے مرا انعام چاہیے

بس ایک چیخ سی ابھرے گی خانۂ دل سے

پھر اس کے بعد مری خامشی سنے گا کوئی

ایک زمانہ ٹھہرا ہوا ہے

میری نقل مکانی میں

مرے جنوں پہ تمہیں اعتبار آئے نہ آئے

یہ سر کا زخم کھلے گا بہار آئے نہ آئے

Recitation

بولیے