Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Salim Saleem's Photo'

سالم سلیم

1985 | دلی, انڈیا

نئی نسل کے اہم شاعر

نئی نسل کے اہم شاعر

سالم سلیم کے اشعار

4.3K
Favorite

باعتبار

خود اپنے آپ کو ویسے بھی ڈھونڈھنا ہوگا

صدائیں دے کے مجھے یوں بھی چھپ رہے گا کوئی

چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز

جو میرے سینہ میں اک روز خامشی ہوئی تھی

جو ایک دم میں تمام روحوں کو خاک کر دے

بدن سے اڑتا ہوا اک ایسا شرار دیکھوں

کسی اور در کے نشان میری جبیں پہ ہیں

تو بہت دنوں سے مرا خدا نہیں ہو رہا

بجھا رکھے ہیں یہ کس نے سبھی چراغ ہوس

ذرا سا جھانک کے دیکھیں کہیں ہوا ہی نہ ہو

عشق کرنا بہت ضروری ہے

تم محبت کو عشق کہتے ہو

اپنے جیسی کوئی تصویر بنانی تھی مجھے

مرے اندر سے سبھی رنگ تمہارے نکلے

دیکھنا تعبیر میں ہر صبح کو صحرا کی پیاس

رات کو پھر اپنے خوابوں میں سمندر دیکھنا

بھید بھرے اس پانی میں

ڈوب گیا حیرانی میں

اس دل میں چبھا رہتا تھا کانٹے کی طرح وہ

اک روز اسے میں نے محبت سے نکالا

چراغ عشق بدن سے لگا تھا کچھ ایسا

میں بجھ کے رہ گیا اس کو ہوا بنانے میں

بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود

شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے

ایک زمانہ ٹھہرا ہوا ہے

میری نقل مکانی میں

ہجر کے دن تو ہوئے ختم بڑی دھوم کے ساتھ

وصل کی رات ہے کیوں مرثیہ خوانی کریں ہم

طے کر لیا ہے میں نے سرابوں بھرا سفر

اے دشت اب مجھے مرا انعام چاہیے

بس ایک چیخ سی ابھرے گی خانۂ دل سے

پھر اس کے بعد مری خامشی سنے گا کوئی

سنا ہے چاند کو الجھا لیا ہے شاخوں نے

سو اب چراغ دریچوں پہ رکھ دیے جائیں

مرے جنوں پہ تمہیں اعتبار آئے نہ آئے

یہ سر کا زخم کھلے گا بہار آئے نہ آئے

میں آسمان و زمیں کے جھگڑے میں یوں ہی بے وجہ پڑ گیا تھا

کوئی بلاتا ہے پاس اپنے کسی کے ہم راہ چل رہا ہوں

اور کب تک زندگی کی ناز برداری کریں

دوستو آؤ چلو مرنے کی تیاری کریں

راس آتی نہیں اب میرے لہو کو کوئی خاک

ایسا اس جسم کا پابند سلاسل ہوا میں

ٹوٹتے برتن کا شور اور گونگی بہری خامشی

ہم نے رکھ لی ہے بچا کر ایک گہری خامشی

کیسا ہنگامہ بپا ہے کہ مرے شہر کے لوگ

خامشی ڈھونڈھنے غاروں کی طرف جاتے ہوئے

کتنے بے کار خداؤں کی عبادت کی ہے

آخری بار کسی بت سے شکایت کی ہے

نہ جانے کیسی گرانی اٹھائے پھرتا ہوں

نہ جانے کیا مرے کاندھے پہ سر سا رہتا ہے

میں آپ اپنے اندھیروں میں بیٹھ جاتا ہوں

پھر اس کے بعد کوئی شے چمکتی رہتی ہے

میری مٹی میں کوئی آگ سی لگ جاتی ہے

جو بھڑکتی ہے ترے چھڑکے ہوئے پانی سے

یہ جسم اترا ہوا ہے میرا کہ روح سے خود کو ڈھانپنا ہے

کوئی نہ آئے ذرا یہاں پر ابھی میں کپڑے بدل رہا ہوں

سمیٹنے میں لگے ہیں ہم اپنی سانسوں کو

یہ جانتے ہیں کہ اک دن بکھیر دے گا کوئی

یہ آنکھیں سوکھی پڑی ہیں لہو سے نم کر لوں

جو تم کہو تو ذرا سا تمہارا غم کر لوں

میں گھٹتا جا رہا ہوں اپنے اندر

تمہیں اتنا زیادہ کر لیا ہے

اب اس کے بعد کچھ بھی نہیں اختیار میں

وہ جبر تھا کہ خود کو خدا کر چکے ہیں ہم

کہکشائیں مری مٹی کی طرف آتی ہوئیں

مرے ذرات ستاروں کی طرف جاتے ہوئے

آ رہا ہوگا وہ دامن سے ہوا باندھے ہوئے

آج خوشبو کو پریشان کیا جائے گا

تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب

ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے

کتنا مشکل ہو گیا ہوں ہجر میں اس کے سو وہ

میرے پاس آئے گا اور آسان کر دے گا مجھے

وہ دور تھا تو بہت حسرتیں تھیں پانے کی

وہ مل گیا ہے تو جی چاہتا ہے کھونے کو

ترس رہی تھیں یہ آنکھیں کسی کی صورت کو

سو ہم بھی دشت میں آب رواں اٹھا لائے

ہوتے ہوئے جدا کوئی مجھ کو بھی دکھ نہ تھا

اور وہ بھی اپنے گاؤں کے رستے سے کٹ گیا

تمام بچھڑے ہوؤں کو ملاؤ آج کی رات

تمام کھوئے ہوؤں کو اشارا کر کے لاؤ

یہ کیسی آگ ہے مجھ میں کہ ایک مدت سے

تماشہ دیکھ رہا ہوں میں اپنے جلنے کا

تھکے ہوئے سے بدن کو لٹا کے بستر پر

ہم اپنے آپ سے لڑتے ہیں نیند آنے تک

جو ہوئی صبح تو دیکھے نئے قدموں کے نشاں

آج ہی رات کو لوٹے تھے سفر سے اپنے

جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو

روح کے اندر کوئی کار بدن ہوتا ہوا

زندگی نے جو کہیں کا نہیں رکھا مجھ کو

اب مجھے ضد ہے کہ برباد کیا جائے اسے

اب اس چہرے پہ کوئی اور چہرا کر لیا جائے

تماشہ دیکھنے والوں سے پردہ کر لیا جائے

اک برف سی جمی رہے دیوار و بام پر

اک آگ میرے کمرے کے اندر لگی رہے

شاید کچھ مجبوری بڑھتی جاتی ہے

تجھ سے میری دوری بڑھتی جاتی ہے

مجھی سے ہوئے یہ رستے تمام جاتے ہیں اس کے در تک

میں آ رہا ہوں اسی کے در پر کہ اپنے اندر نکل رہا ہوں

سو گیا وقت کی دہلیز پہ سر رکھے ہوئے

میں کہاں تک سفر عشق میں تنہا جاتا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے